کراچی (صباح نیوز)چیئرمین بزنس مین گروپ (بی ایم جی) زبیر موتی والا اور کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) کے صدر محمد ادریس نے اسٹیٹ بینک کی جانب سے ایک ہنگامی اجلاس میں شرح سود میں 2.5 فیصد اضافے سے 12.5 فیصد تک کرنے کے اقدام کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے گورنر اسٹیٹ بینک پر زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر اس اضافہ پر نظرثانی کریںاور اسے واپس لیں کیونکہ یہ معیشت، برآمدات اور صنعتوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔ایک مشترکہ بیان میں چیئرمین بی ایم جی اور صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ اسٹیٹ بینک کے کاروبار و برآمدات دشمن اور معیشت مخالف اقدام کو دیکھ کر پوری تاجر برادری صدمے سے دوچار ہے جو خاص طور پر ایسے حالات میں کیا گیا ہے جب ملک کی معیشت اتنی خراب نہیں ہے۔ اسٹیٹ بینک کی خود مختاری کا مطلب یہ نہیں کہ وہ راتوں رات اتنا سخت قدم اٹھانے کے لیے آزاد ہے جو 25 سالہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کیے بغیر شرح سود میں اچانک اور حد سے زیادہ اضافہ کرنا انتہائی غیر منصفانہ ہے۔ کراچی چیمبر نے وقتاً فوقتاً گورنر اسٹیٹ بینک سے کے سی سی آئی  کا دورہ کرنے کی درخواست کی تاکہ کاروبار کو متاثر کرنے والے کئی مالیاتی مسائل اور مرکزی بینک کی پالیسیوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا جا سکے لیکن بدقسمتی سے گورنر اسٹیٹ بینک کے پاس کراچی کی تاجر برادری کو درپیش کچھ انتہائی اہم مسائل پر بات کرنے کا وقت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ گزشتہ ماہ پاکستان کی برآمدات میں گزشتہ سال کے مقابلے ماہ در ماہ بنیاد پر پچھلے ماہ 29.1 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ برآمدی شعبہ بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔  انہوں نے خبردار کیا کہ شرح سود میں اضافے کے برآمدی کارکردگی پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے جو صنعتوں اور مستقبل کی سرمایہ کاری کے لیے مکمل طور پر تباہ کن ہو گا کیونکہ حد سے زیادہ شرح سود اور کاروبار کرنے کی زیادہ لاگت کی وجہ سے کوئی بھی صنعت لگانے کے لیے آگے نہیں آئے گا جس سے کاروبار کی بقا داؤ پر لگنے والی ہے۔چیئرمین بی ایم جی اور صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ شرح سود میں بے جا اضافہ صنعتی و برآمدی سرگرمیوں کو مکمل طور پر بند کرنے کی کوشش لگتا ہے۔ کیا اسٹیٹ بینک برآمدات کے ذریعے حاصل ہونے والے غیر ملکی زرمبادلہ کو مکمل طور پر روکنے اور پاکستان کی معیشت کو سری لنکا کی معیشت کے برابر لانے کا ارادہ رکھتا ہے؟  انہوں نے اسٹیٹ بینک کو مشورہ دیا کہ وہ عالمی شرح سود کا پاکستان میں ضرورت سے زیادہ شرح سود سے موازنہ کرے جس سے ہمیں ڈر ہے کہ کہیں معاشی سرگرمیاں بالکل مانند نہ پڑ جائیں۔انہوں نے کہاکہ شرح سود میں اضافے کا فیصلہ مہنگائی پر قابو پانے کے لیے کیا گیا ہے لیکن زمینی حقائق اور کاروبار کرنے کی مجموعی بلندلاگت کو مدنظر رکھتے ہوئے تاجر وصنعتکار برادری کا پختہ یقین ہے کہ شرح سود میں اضافہ مہنگائی کو مزید پروان چڑھا ئے گا۔چیئرمین بی ایم جی نے کہا کہ وہ کراچی کی تاجر برادری کے رہنما کی حیثیت سے شرح سود میں اضافے کے فیصلے پر نظرثانی کا پُرزور مطالبہ کرتے ہیں جو کہ بالکل بھی ملک کے مفاد میں نہیں ہے اس لیے اسے واپس لینا ہی ہوگا جبکہ اسٹیٹ بینک کو تجاتی و صنعتی سرگرمیوں پر براہ راست اثر انداز ہونے والے ایسے فیصلے کو مسلط کرنے سے قبل اسٹیک ہولڈرز سے بھی مشاورت ضرورکرنی چاہیے۔صدر کے سی سی آئی نے کہا کہ ڈالر کی قدر میں اضافہ سیاسی انتشار کی وجہ سے ہوا ہے نہ کہ خراب معاشی کارکردگی کی وجہ سے جس پر تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا اثر ابھی تک نہیں پڑا ہے اس لیے اسٹیٹ بینک کو معیشت کے لیے مزید مسائل پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔