قومی اسمبلی میں عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی کا خطاب
اسلام آباد (ویب نیوز)
نومنتخب سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ پاکستان وقت کے ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے جہاںفیصلہ کرنا ہے کہ اسے ناامیدی کے اندھیروں سے نکل کر ایک حقیقی روشن خیال، سب کو ساتھ لے کر چلنے والے اور ترقی پسند پاکستان کو منتخب کرنا ہے یا بہتان تراشی اور منافرت کی نذر ہو کر تقسیم در تقسیم ہو جانا ہے۔ اور یہ فیصلہ بطور عوام کے منتخب نمائندے ، آپ سب کو کرنا ہے۔ قومی اسمبلی میں عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ بطور اسپیکر میری کوشش ہو گی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کی پلیٹ فارم سے بار کونسلوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، مزدور تنظیموں اور طلبہ یونیز سے اِس پارلیمان کے روابط بحال رکھے جائیں ۔انہوں نے کہا کہ خواتین کی موثر شمولیت اِس اسمبلی کی کامیابی کا راز ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ خواتین ارکان پوری تندہی سے ایوان کی کاروائی میں حصہ لیں گی اور خواتین ارکان کے پارلیمانی کاکس کے ذریعہ پاکستان کی عورت کے حقوق کا دفاع کریں گی ۔ان کا کہنا تھاکہ اقلیتی ارکان اور نوجوان ارکانِ اسمبلی کو میں اپنی حقیقی طاقت سمجھتا ہوں کیونکہ اِن معزز ارکان سے میں توقع رکھتا ہوں کہ عوام کے پسے ہوئے طبقات کے مسائل کو وہ بلا خوف و خطر اِس ایوان کے سامنے رکھتے رہیں گے۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ میں رب ذوالجلال کے سامنے انتہائی انکساری اور عاجزی کے ساتھ سر کو جھکاتا ہوں جس نے اپنے ایک ادنا بندے کو ایسے باوقار منصب پر بٹھایا۔۔ میں اپنے قائد، سیاستِ پاکستان کے مردِ حر ، جناب آصف علی زرداری اور قائدِ عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہیدِ جمہوریت محترمہ بینظیر بھٹو سمیت جمہوریت کے ہزاروں شہیدوں کے وارث ، جناب بلاول بھٹو زرداری کا ممنون ہوں جنہوں نے خطہ پوٹھوہار کے ایک سیاسی کارکن کو اِس کرسی کا اہل جانتے ہوئے مجھے نامزد کیا۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ میں قائدِ ایوان وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف، پارلیمانی زعما اسعد محمود، خالد مقبول صدیقی ، خالد مگسی، اختر مینگل ، طارق بشیر چیمہ ، غوث بخش مہر، نوابزادہ شاہ زین بگٹی، امیر حیدر ہوتی، اسلم بھوتانی، علی نواز شاہ اور محسن داوڑ سمیت اِس معزز ایوان کے ایک ایک رکن کا انتہائی مشکور ہوں کہ آپ سب نے جمہوریئت ، حقِ اظہارِ رائے اور اِس معزز ایوان کی سربلندی کی جدوجہد میں شامل اپنے ایک دیرینہ ساتھی کو اہلِ پاکستان کی امنگوں کی ترجمان ، ویں قومی اسمبلی کے بائیسویں اسپیکر کے طور پر بلا مقابلہ منتخب کیا۔انہوں نے کہاکہ وطنِ عزیز پاکستان کے ڈائمنڈ جوبلی سال میں یہ انتخاب اِس لحاظ سے بھی تاریخ ساز اور یادگار رہے گا کہ یہ ہماری ملکی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم کو اِس محترم منصب کا اہل جانا ہے ۔ سو آج ہم نے اپنی پارلیمانی تاریخ میں ایک نئی رسم کا آغاز کیا ہے جہاں محض اقتدار کا جاہ و جلال ہی ہمارا مطمع نظر نہیں بلکہ اِس معزز ایوان کی تعظیم و توقیر بھی ہمارے پیشِ نظر ہے۔۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ بطورِ اسپیکر، میں سمجھتا ہوں کہ یہی میرا سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ میرے پیشِ نظر برطانوی تاریخ کے نامور مدبر اور دا ر العوام کے مشہور اسپیکر ولیم لینتھل کے وہ تاریخی الفاظ بھی ہیں جب 1642 میں طاقت کے نشے میں چور ایک جابر بادشاہ چارلس اول کے سامنے اسپیکر لینتھل اپنے پانچ ممبران کے تحفظ کے لیئے سینہ سپر ہو گیا اور بادشاہ کو دو ٹوک الفاظ میں بتا دیا کہ:” اِس ایوان میں نہ تو میری اپنی کوئی آنکھ ہے جو دیکھ سکے اور نہ ہی اپنی کوئی زبان ہے جو بول سکے ماسوا اس کے جو یہ ایوان مجھے دکھاتا اور مجھ سے بلواتا ہے ۔ اِس ایوان میِں میں فقط اِس ایوان کا خادم و وفادار ہوں”یہ ہے اسپیکر کا وہ جو کردار ، جو ساڑھے چار سو سال بعد بھی وہ تاریخ کا حصہ ہے ۔ اسپیکر کے عہدے سے توقع کی جانے والی تمام تر غیرجانبداری، اِس اہم منصب سے وابستہ بردباری اور ایوان اور اِس کے ممبران کے تحفظ کے لیئے اسپیکر کے بطور ” کسٹوڈین” کی تمام روائیت صرف اور صرف اِس ایک واقعے سے برامد ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ ہمارے آئین اور نہ ہی قومی اسمبلی کے قوائد و ضوابط میں کہیں بھی کسٹوڈین کا لفظ موجود ہے لیکن یہ کردار اسپیکرکے منصب کا جزوِ لاینفق ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے کہاکہمیں یہ کیسے بھول سکتا ہوں کہ جس کرسی کے لیئے آج اِس معزز ایوان نے میرا بلا مقابلہ انتخاب کیا ہے، اسی منصب پر سب سے پہلے ، قیام ِ پاکستان سے بھی تین روز قبل ، 11 اگست 1947 کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی نے بابائے قوم حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو بلا مقابلہ اپنا پہلا سربراہ منتخب کیا تھا۔ اور اسی مسند پر یہ ایوان شہید ذوالفقار علی بھٹو کو بھی منتخب کر چکا ہے۔ اپنے انتخاب کے موقع پرکیا گیا قائدِ اعظم کا خطاب جہاں مملکتِ پاکستان کا پہلا سرکاری اور قومی آئینی بیانیہ ہے وہیں ریاستی ڈھانچے میں مقننہ کے مرکزی کردار پر بھی مہر تصدیق ثبت کرتا ہے۔ اِس خطاب میں بانیِ پاکستان نے دو ٹوک الفاظ میں فرما دیا تھا
:”یاد رکھئے کہ آپ خود مختار قانون ساز ادارہ ہیں اور آپ کو ہی تمام اختیارات حاصل ہیں۔ "۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ بطور اسپیکر میری پہلی ذمہ داری اِس ایوان کی خودمختاری اور اِس کو حاصل اختیارات کا تحفظ ہو گا۔ میری ناقص رائے میں ایسا تبھی ہو سکتا ہے:۔انہون نے کہاکہ جب مملکت اور عوام کو درپیش تمام اہم مسائل کا فیصلہ اِس ایوان میں ہو۔ ۔ بند دروازوں کے پیچھے نہیں۔ ۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ جب آئینِ پاکستان کی دفعہ 91 کی ذیلی شق 6 کی حقیقی روح کو سامنے رکھتے ہوئے تمام وفاقی کا بینہ صرف اور صرف اِس معزز ایوان کو جوابدہ ہو۔ کسی فردِ واحد کو نہیں۔جب حکومتِ وقت عوام کے اِن منتخب نمائندوں کی رائے کو مقدم جانے اور اپنی پالیسیاں پوری دیانتداری سے اِس ہاوس اور اِس سے منسلک کمیٹیوں کے سامنے رکھے۔ اِس پر مسلط نہ کرے۔۔جب ایوان کو طاقت کا سرچشمہ سمجھا جائے ، ربر سٹیمپ نہیں۔ راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ ہمیں یاد رکھنا ہو گا کہ اہل ِ پاکستان نے مملکت کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیئے اِس ایوان کو منتخب کیا ہے سو مسائل کا حل باہمی مشاورت اور مکالمے میں ہے، نفرت، عدم برداشت اور نعرے کی سیاست میں نہیں۔ بحثیت سیاسی کارکن، میری تربیت ایک ایسی جماعت میں ہوئی ہے جس کے قائد شہید ذوالفقار علی بھٹو نے دس اپریل 1973 کو پہلے متفقہ آئین کی منظوری کے موقعہ پر فرمایا تھا: ” ہمیں ایک ایسا سیاسی معاشرہ قائم کرنے کی ضرورت ہے :۔۔۔۔جہاں مکالمے کو فروغ دیا جائے ، منافرت کو نہیں، ۔۔۔۔ جہاں مختلف خیالات میں سمجھوتہ ہو، محاذ آرائی نہیں، ۔۔۔۔ جہاں قومی اتفاق رائے کو فروغ دیا جائے، نفاق کو نہیں۔”۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب حکومت عدوی اکثریت کی بنیاد پر نہیں بلکہ سب کو ساتھ لے کر چلنے کی بنیاد پر کی جائے۔ گزشتہ ساڑھے تین برسوں میں ہم یہ تواتر سے کہتے آئے ہیں کہ یہ ایوان نامکمل ہے اگر اِس میں اپوزیشن کی آواز شامل نہیں۔ آج بطور اسپیکر میں اسے اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اس ایوان میں اپوزیشن کی آواز کسی بھی حیلہ آزمائی سے دبائی نہ جائے بلکہ اسے سنا جائے اور اس کا احترام کیا جائے۔ ہمیں مسائل کو اِس ایوان میں لانا ہے۔ اِس ایوان سے باہر لے جا کر عوام کو تقسیم نہیں کرنا۔ سو انگریزی کا یہ مشہور معقولہ کہ
The Majority may have its way but the Opposition MUST have its say.
ہمیشہ میرے پیشِ نظر ہو گا۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ ریاست کے اداروں کے درمیان ادب، احترام اور باہمی مشاورت آئینِ پاکستان کی روح ہے۔ تمام اداروں کو اپنے اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی مدد اور راہنمائی کرنی چاہئے ۔ اِس حوالے سے پارلیمان کی تمام پارلیمانی اور قائمہ کمیٹوں کو فعال اور مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی اِس ایوان کی حقیقی طاقت ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فی زمانہ پارلیمانی سفارت کاری ممالک کے درمیان مسائل کے حل کا بہترین ذریعہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس ایوان میں موجود ایسی کئی زیرک اور مدبر شخصیات موجود ہیں جن کے ذریعے ہم خطے اور عالمی سطح پر پاکستان اور اِس کے جمہوری اداروں کا وقار بلند کر سکتے ہیں۔ پارلیمانی فرینڈ شپ گروپس اور بین الپارلیمانی اداروں میں ہماری بھرپور شرکت سے یہ ہدف حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ۔ ایک فعال پریس کے بغیر ایوان مکمل نہیں سو میں پارلیمانی رپورٹرز ایسوسی ایشن کے بھر پور تعاون کا مشتاق ہوں اور سینئر صحافیوں کی راہنمائی بھی چاہوں گا۔ یقین رکھیئے کہ یہ ایوان حقِ اظہارِ رائے کا نگہبان اور محافظ ہے۔ راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھاکہ شہید محترمہ بینظیر بھٹو نے ایک فعال اور متحرک سول سوسائیٹی کو حقیقی جمہوریت کی اساس قرار دیا تھا۔ سو بطور اسپیکر میری کوشش ہو گی کہ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز کی پلیٹ فارم سے بار کونسلوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، مزدور تنظیموں اور طلبہ یونیز سے اِس پارلیمان کے روابط بحال رکھے جائیں ۔انہوں نے کہاکہ خواتین کی موثر شمولیت اِس اسمبلی کی کامیابی کا راز ہے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ خواتین ارکان پوری تندہی سے ایوان کی کاروائی میں حصہ لیں گی اور خواتین ارکان کے پارلیمانی کاکس کے ذریعہ پاکستان کی عورت کے حقوق کا دفاع کریں گی ۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ اقلیتی ارکان اور نوجوان ارکانِ اسمبلی کو میں اپنی حقیقی طاقت سمجھتا ہوں کیونکہ اِن معزز ارکان سے میں توقع رکھتا ہوں کہ عوام کے پسے ہوئے طبقات کے مسائل کو وہ بلا خوف و خطر اِس ایوان کے سامنے رکھتے رہیں گے۔راجہ پرویز اشرف نے کہاکہ پاکستان وقت کے ایک اہم دوراہے پر کھڑا ہے جہاں اسے فیصلہ کرنا ہے کہ اسے ناامیدی کے اندھیروں سے نکل کر ایک حقیقی روشن خیال، سب کو ساتھ لے کر چلنے والے اور ترقی پسند پاکستان کو منتخب کرنا ہے یا بہتان تراشی اور منافرت کی نذر ہو کر تقسیم در تقسیم ہو جانا ہے۔ اور یہ فیصلہ بطور عوام کے منتخب نمائندے ، آپ سب کو کرنا ہے۔ مجھے اپنی متحد قومی قیادت کی صلاحیتوں پر کامل یقین ہے سو میرا ایمان ہے کہ
امانتِ نور جن کے سینوں میں زندہ ہے، وہ حرفِ یقین لکھیں گے
ہماری تقدیر اور کوئی نہیں لکھے گا، ہم ہی لکھیں گے