بجٹ میں ٹیکس کے زریعے آمد کو بڑھانے کیلئے متعدد تجویز سامنے آئیں

سگریٹ پر ٹیکس 150 ارب سے 200 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ہدف

کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کی ادائیگیوں پر ایڈوانس ٹیکس کی تجویز بھی دی گئی

پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کرنے کی تجویز

ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا، وزیر خزانہ کی قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر

اسلام آباد (ویب نیوز)

وفاقی وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی کو بتایا ہے کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں سگریٹ پر ٹیکس 150 ارب سے 200 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے، اس کے علاوہ مختلف کمپنیوں پر ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے ذریعے ٹیکس وصولی یقینی بنانے کا کام بھی اس سال کرنے کا ارادہ ہے،پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ نان فائلر کیلئے پانچ فیصد ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے، اگلے مالی سال تنخواہ دار طبقے کیلئے ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا۔ جمعہ کے روز وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ٹیکس نیٹ کے حوالے سے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ٹیکس کے زریعے آمد بڑھانے کیلئے متعدد اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، سگریٹ پرٹیکس 150 ارب روپے سے بڑھا کر 200 ارب روپے اکٹھا کرنے کا ہدف دیا گیا ہے،اس کے علاوہ مختلف کمپنیوں پر ٹریک اینڈ ٹریس نظام کے ذریعے ٹیکس وصولی یقینی بنانے کا کام بھی اس سال کرنے کا ارادہ ہے، کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈز کی ادائیگیوں پر ایڈوانس ٹیکس کی تجویز دی گئی ہے،کریڈٹ، ڈیبٹ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے پاکستان سے باہر رقم بھیجنے والے فائلرز کے لیے ایک فیصد جبکہ نان فائلرز کے دو فیصد ایڈوانس ود ہولڈنگ ٹیکس صول کرنے کی تجویز دی گئی ہے،تاہم یہ واجب الادا ٹیکس کے خلاف ایڈجسٹ کیا جا سکے گا۔بینکوں پر سپر ٹیکس سے متعلق وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے بینکنگ کمپنیوں پر ٹیکس کی موجودہ شرح 39 فیصد سے بڑھا کر 42 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، لگژری گاڑیوں پر ٹیکس میں اضافہ کیا جا رہا ہے، حکومت کی جانب سے 1600 سی سی سے زائد کی موٹر گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس کی صورت میں ٹیکس بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے،اسی طرح نان فائلر کے لیے ٹیکس کی شرح کو 100 فیصد سے بڑھا کر 200 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔اس کے علاوہ الیکٹرک گاڑیوں پر قیمت کے دو فیصد کی شرح سے ایڈوانس ٹیکس وصول کرنے کی تجویز ہے۔پراپرٹی ٹیکس کے حوالے سے مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ  وہ تمام افراد جن کی پاکستان میں ڈھائی کروڑ روپے سے زیادہ کی ایک سے زائد غیر منقولہ جائیداد ہے، اس پر حکومت کی جانب سے مارکیٹ ویلیو کے حساب سے پانچ فیصد کے برابر فرضی آمدن یا کرایہ تصور کیا جائے گا اور اس پر ایک فیصد کی شرح سے ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے،تاہم ایک عدد ذاتی رہائشی گھر اس ٹیکس سے مستثنی ہو گا،غیر منقولہ جائیداد کی لین دین پر ٹیکس سے متعلق بتایا کہ پاکستان میں واقع غیر منقولہ جائیداد کی ایک سال ہولڈنگ مدت پر کیپیٹل گین کی صورت میں 15 فیصد ٹیکس لگانے کی تجویز ہے، جو ہر سال، ڈھائی فیصد کمی کے ساتھ چھ سال کی ہولڈنگ مدت کے بعد صفر ہو جائے گی،پراپرٹی کی خرید و فروخت پر ایڈوانس ٹیکس کی شرح ایک فیصد سے بڑھا کر دو فیصد کرنے کی تجویز ہے جبکہ جائیداد خریدنے والے نان فائلرز کے لیے ٹیکس کی شرح پانچ فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ بجٹ تقریر کے دوران وفاقی وزیر نے بتایا کہ تنخواہ دار افراد پر ٹیکس کی شرح سے متعلق متعدد تجویز دی گئی ہیں، ٹیکس چھوٹ بڑھا کر 12 لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے، اگلے مالی سال تنخواہ دار طبقے کیلئے ماہانہ ایک لاکھ روپے تنخواہ پر کوئی ٹیکس نہیں ہوگا،وفاقی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں ٹیکس چھوٹ کی موجودہ حد سالانہ چھ لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے کرنے کی تجویز دی ہے، اس کے علاوہ حکومت نے بہبود سیونگ سرٹیفیکیٹ، پینشنر بینیفٹ اکانٹ اور شہدا فیملی ویلفیئر اکانٹ میں سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والے منافع پر ٹیکس کی شرح کو دس فیصد سے پانچ فیصد کرنے کی تجویز دی ہے،حکومت کی جانب سے زیادہ آمدنی والے افراد اور کمپنیاں جن کی سالانہ آمدن 30 کروڑ روپے یا اس سے زیادہ ہو، ان پر دو فیصد ٹیکس لگائے جانے کی تجویز دی گئی ہے۔