حکومت نے ریڈیو اور سرکاری خبررساں ادارے کو چلانے کے لئے ٹیکس وصولی کی تیاری شروع کردی

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات ونشریات کو آگاہی، ارکان  کی مخالفت

ایک ایک بندے کے دس دس اخبار ہیں جو کبھی چھپتے نہیں ،مرتضی سولنگی

سیاسی جماعتوں سے ریاستی  میڈیا کے لئے  اصلاحات طلب کرلیں

اسلام آباد ( ویب نیوز)

حکومت نے ریڈیو اور  سرکاری خبررساں ادارے کو چلانے کے لئے ٹیکس وصولی کی تیاری شروع کردی ، سیس  کا نام دیا گیا سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اطلاعات ونشریات کو آگاہ کردیا گیا جب کہ ارکان نے نئے  ٹیکس نفاذ کی مخالفت کردی۔نگران وزیراطلاعات نے کہا ہے وزارت کے منسلک اداروں کے بہت سے مسائل ہیں ڈمی اخبارات ہیں،ایک ایک بندے کے دس دس اخبار ہیں جو کبھی چھپتے نہیں انھوں نے سیاسی جماعتوں سے ریاستی  میڈیا کے لئے  اصلاحات طلب کرلیں ارکان نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ  ٹی وی چینلز پر کچھ  ایسے ڈرامے ہیں  جو فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں ہیں، ہماری روایات اور اخلاقیات کے خلاف ہیں۔منگل کو سینیٹر فوزیہ ارشد کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کا اجلاس پارلیمینٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔نگران وزیر اطلاعات و پارلیمانی امور مرتضی سولنگی  بھی  اجلاس میں شریک ہوئے ۔ریڈیو پاکستان کے 53ڈیلی ویجز ملازمین کا معاملہ زیرغورآیا حکام نے کہا کہ ہم نے ان کو ضرورت کی بنیاد پر رکھا تھا،یہ کنٹریکٹ ملازمین نہیں ہیں۔سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ  معلوم ہوا ہے کہ ڈی جی  تحقیقات کر رہے ہیں کہ شاید 53 لوگ پراسس اورمیرٹ کے بغیر بھرتی کر لئے گئے،اگر کمیٹی ان کے ماتحت افسروں پر مشتمل ہے تو پھر ان سے کیا توقع کریں،حکام کا موقف تھا کہ ریڈیو کو کمیٹی بنانی تھی تو اس لئے کمیٹی بنائی گئی، 53 میں سے اب صرف 18 کام کر رہے ہیں،ارکان نے کہا کہ پہلے ان کو رکھنا عجیب ہے، پھر ان کا چلے جانا عجیب ہے۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ یہ درست ہے کہ نگران حکومت کوئی ریگولر بھرتیاں نہیں کر سکتی،یہ ایک روایت جو چلی آرہی ہے اس کے تحت ہائیر ہوئے۔ کمیٹی کی سربراہ نے کہا کہ جو لوگ رکھے گئے  ہیں،کیا ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں؟کوئی مستقل پالیسی بننی چاہئے۔سینیٹر مولا بخش چانڈیونے کہا کہ حیدر آباد کا ریڈیو اسٹیشن آج آثار قدیمہ بن چکا ہے،وہ آجکل ویران ہے،بھوت خانہ بنا ہوا ہے۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ مجھے کمیٹی کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔ ارکان کو موقف تھا کہ ہر اپوائنٹمنٹ کا طریقہ کار طے ہے، نیا کون سے طے کرنا ہے؟ سینیٹر عرفان الحق صدیقی  نے کہا کہ جو بھی کام آپ کریں، سسٹم کے اندر رہتے ہوئے کریں۔حکام نے کہا کہ پورے پاکستان میں ہمارے لوگ کم ہیں، ریکروٹمنٹ نہیں ہوئی،1200 لوگوں کو 2019 میں ملازمت سے فارغ کردیا گیا تھا۔مرتضی سولنگی نے کہا کہ ریڈیو کے پرانے ٹرانسمیٹر ہیں، سالانہ 60 کروڑ بجلی کا بل ہے، ٹوٹل بجٹ کا 76 فیصد صرف تنخواہوں اور پنشن پر جارہا ہے، اسٹیٹ میڈیا میں سب سے پرانا ادارہ ریڈیو ہے،پینشنرز کی تعداد ملازمین سے زیادہ ہے،کمیٹی کے تین چار اجلاس اداروں کی اصلاحات کے لئے منعقد کئے جائیں،اور بھی بہت مسائل ہیں، ڈمی اخبارات ہیں،ایک ایک بندے کے دس دس اخبار ہیں جو کبھی چھپتے نہیں۔سیکرٹری اطلاعات نے کہا کہ ساڑھے 12 روپے ریڈیو پاکستان اور اڑھائی روپے اے پی پی کے لئے بجلی بلز سے جمع کرنے کی تجویز ہے،یہ سیس وہیں لگے جہاں سے پی ٹی وی کے لئے جمع ہوتاہے۔سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہا کہ   بجلی کے بل سے پہلے ہی لوگ تنگ ہیں، ہر گاڑی کے اندر ریڈیو ہے،فیس کو بجلی کے بل سے نہ جوڑا جائے، اسے بجلی کے بل بجائے گاڑیوں کی طرف لے جائیں،عرفان الحق صدیقی چیئرپرسن نے کہا کہ بلوں پر اتنے زیادہ احتجاج ہو چکے ہیں،غریبوں پر اور زیادہ نزلہ گرے گا۔ونیزہ احمد کی بطور ہیڈ آف ڈرامہ اینڈ فلم پروڈکشن اکیڈمی 8 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر بھرتی کا معاملہ بھی اٹھ گیا۔سینیٹر عرفان الحق نے کہا کہ  اشتہار جون میں آیا ہے، اس کا نوٹیفیکیشن کب ہوا؟ آپ نے ادارے کے باہر سے ایک خاتون کو اتنی بھاری تنخواہ پر ملازمت پر رکھا،کیا یہ جانتی ہیں کہ فلم پروڈکشن کیا ہے؟بھاری معاوضے پر  بھرتی کے حوالے سے تمام تفصیلات طلب کرلی ہیں ۔اجلاس میں  سابقہ ہدایات بالخصوص 53 یومیہ اجرت پر بھرتی ہونے والے ملازمین سے متعلق سفارشات پر عمل درآمد کا جائزہ لیا گیا۔نگران وزیراطلاعات نے کہا کہ کمیٹی ملازمین کی بھرتی کے حوالے سے وزارت کے جس ادارے میں تحقیقات کرانا چاہتی ہے، واضح ہدایت جاری کرے، اس پر عمل کریں گے،نگران حکومت کوئی ریگولر اپوائنٹمنٹ نہیں کر سکتی، نگران حکومت یہ بھی نہیں کر سکتی کہ کوئی ادارہ بند ہو جائے، اسٹاف کی کمی دور کرنے یا ضروری پروگرام چلانے کے لئے وقتا فوقتا کچھ لوگوں کی خدمات حاصل کرنا پڑتی ہیں، یومیہ اجرت پر بھرتی کے لئے اشتہار کا پراسیس طویل ہوگا، اس طرح ادارے کام نہیں کر سکیں گے، مرتضی سولنگی نے کہا کہ اگر کمیٹی تجویز کرتی ہے کہ ڈیلی ویجز کے لئے اشتہار کی شرط لازمی ہے تو کمیٹی کی رائے اور فیصلہ پر عمل کریں گے،کمیٹی یومیہ اجرت پر بھرتی کیلئے اشتہار دینے یا کسی قسم کی بھرتی کرنے یا نہ کرنے سے متعلق واضح ہدایت دے، ہم عمل کریں گے، کمیٹی کے ارکان کا مشکور ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کا اظہار کیا،مجھے کمیٹی کی رہنمائی کی ضرورت ہے،ہمیں کسی واضح ہدایت کے ساتھ یہاں سے اٹھنا چاہئے تاکہ اگلی بار اس مسئلہ کو دوبارہ نہ اٹھایا جائے،پی ٹی وی سمیت ریاستی براڈ کاسٹرز میں اصلاحات کی ضرورت ہے،ہم الیکشن کی طرف جا رہے ہیں، میری تمام سیاسی جماعتوں سے گذارش ہے کہ آپ اسٹیٹ میڈیا کی اصلاحات کا پروگرام ڈسکس کریں۔ وزیراطلاعات نے کہا کہ اس وقت ریڈیو پاکستان کا ٹوٹل بجٹ کا 76 فیصد حصہ تنخواہوں اور پنشنز میں ادا ہو رہا ہے،بہت سے ملازمین کے کمیوٹیشن، جی پی فنڈز رکے ہوئے ہیں،اس وقت پاکستان کے سرکاری میڈیا میں سب سے پرانا ادارہ ریڈیو پاکستان ہے،ریڈیو پاکستان میں پنشنرز کی تعداد موجودہ ملازمین سے زیادہ ہے،4182 پنشنرز اور 1996 ملازمین ہیں، اس طرح یہ ادارے نہیں چل سکتے، ان میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ای ڈی پاکستان براڈکاسٹنگ ایسوسی ایشن نے کمیٹی کو پی بی اے کی کارکردگی اور فنکشنز بارے تفصیلی آگاہ کیا۔ سینیٹر فوزیہ ارشد کے سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ پیمرا میں شکایات کا جائزہ لینے کیلئے کونسل آف کمپلینٹس ہوتی ہے جو 2.5سال سے غیر فعال ہے جس کی وجہ سے شکایات کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات مرتضی سولنگی نے کہا کہ کونسل آف کمپلینٹس کے حوالے سے تمام کام مکمل ہو  چکا ہے کیبنیٹ سے منظوری حاصل کرنا باقی ہے۔ سینیٹر فوزیہ ارشد نے کہا کہ ٹی وی چینلز پر کچھ ڈرامے دکھائے جا رہے ہیں وہ فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ کچھ چیزیں ہماری روایات اور اخلاقیات کے خلاف ہیں۔موثر حکمت عملی اختیا ر کرکے اپنی ثقافت،روایات،رسم و رواج اور اخلاقیات کے مطابق ڈرامے چلانے چاہیے کے آج کے اجلاس میں سینیٹرز ،محمد طاہر بزنجو،نسیمہ احسان  بھی موجودتھیں۔