ٹیکنالوجی کا استعمال انتخابی عمل میں شفافیت لانے، سیاسی اعتماد کی فضا قائم کرنے اور تقسیم کے عمل کو کم کرنے میں مدگار ثابت ہو گا

اسلام آباد (ویب نیوز)

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ وہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں اور اوورسیز پاکستانیوں کے ووٹنگ کے معاملے سے ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے منسلک رہے ہیں اور تمام حکومتوں، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ میں اِس کی پیروی کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ آئین کی پاسداری کرتے رہے ہیں اور انہیں اِس بات کا ادراک ہے کہ آئین پاکستان ان کے اِس بل پر دستخط نہ کرنے کے باوجود اسے قانون کی شکل دے دے گا۔انہوں نے پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 75 (2) کا حوالہ دیا جس میں کہا گیا ہے کہ صدر کے مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)کو بل واپس کرنے پر مجلس شوریٰ (پارلیمنٹ)مشترکہ اجلاس میں اس پر دوبارہ غور کرے گی اور اگر یہ مجلس شوریٰ(پارلیمنٹ)کے ذریعے، ترمیم کے ساتھ یا اس کے بغیر اکثریت کے ووٹوں سے دوبارہ منظور کیا جاتا ہے، تو اسے صدر کے سامنے پیش کیا جائے گا اور صدر دس دن کے اندر اپنی منظوری دے دیں گے، ایسا نہ کرنے کی صورت میں اس بل کی منظوری تصور کی جائے گی۔صدر مملکت نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ بحیثیت صدر پاکستان مجلس شوریٰ کے منظور کردہ بل پر دستخط نہ کرنا ان کے لیے ذاتی طور پر ایک تکلیف دہ امر ہے۔ اس لیے وہ آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے اپنے دلائل اور خیالات قلم بند کرنا چاہتے ہیں۔وجوہات بیان کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ قوانین کی رجعت پسندانہ نوعیت ،جس کی انہوں نے اس وقت نشاندہی کی تھی جب انہوں نے اس بل کو پارلیمنٹ کو واپس بھیجا تھا، کے علاوہ وہ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ٹیکنالوجی، خاص طور پر ای وی ایم ، کو جب موثر طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس میں بہت سے مسائل کا حل موجود ہے جو روایتی طریقوں میں درپیش آتے ہیں۔ ٹیکنالوجی ‘ہمیشہ سے متنازعہ اور چیلنج شدہ انتخابی عمل میں ابہام، اختلاف اور الزامات کو کم کر سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکنالوجی کا استعمال انتخابی عمل میں شفافیت لانے، انتخابی مرحلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی شرکت، سیاسی اعتماد کی فضا قائم کرنے، اور تقسیم کے عمل کو کم کرنے میں مدگار ثابت ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ہمارے اب تک کے ادھورے خواب کو پورا کر سکتے ہیں۔صدر مملکت نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان مستقبل میں تیزی سے کامیابی کی طرف بڑھے، آج کے مسائل کو صرف ماضی کے تجربات کی روشنی میں ہی حل نہیں کرنا چاہئے بلکہ جدید اور نئے سائنسی طریقوں کو بھی بروئے کار لانا چاہیے ۔ مجھے اس بات کا پورا ادراک ہے کہ یہ پارلیمان کے دونوں اطراف میں اعتماد سازی کے فروغ اور شراکت داروں کی وسیع تر شمولیت کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا۔انہوں نے مزید کہا کہ ایسا اب تک کیوں نہیں ہوا اور رائے سازوں اور فیصلہ سازوں کی جانب سے اس عام فہم چیز کو نظر انداز کیوں کیا گیا، یہ میرے لئے ایک معمہ رہے گا۔صدر مملکت نے کہا کہ موجودہ اور مستقبل کی حکومتوں اور پارلیمان کو دو چیزوں کا انتخاب کرنا ہوگا، پہلا یہ کہ ماضی کو اجازت دی جائے کہ وہ پاکستان کو پستی کی طرف لے جائے یا پھر ماضی کے تجربات اور آج کی ٹیکنالوجیز کو بروئے کار لاتے ہوئے ہم پاکستان کے روشن، ترقی پسند اور متحرک مستقبل کا خواب شرمندہ تعبیر کر سکیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اس طرح کے بہت سے مشکل فیصلوں کا ہمیں مستقبل میں بھی سامنا رہے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں صحیح فیصلے کرتی ہیں وہ ترقی کی منازل تیزی سے طے کرتی ہیں اور جو ایسا نہیں کر پاتی وہ مواقع ضائع کرتی ہیں جو انہیں بلندی اور کامیابی کی طرف لے جا سکیں۔