پاکستان میں گیس ذخائرتیزی سے کم ہورہے ہیں،صاف توانائی ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے

ایل این جی ٹرمینل کے ماحولیاتی اثرات سامنے آئے ہیں، ماحول اورایل این جی کی درآمد پربھاری زرمبادلہ کو بچانا ہے ،ورچوئل سیمینار میں گیس مانیٹر رپورٹ پیش

اسلام آباد (ویب نیوز)

پاکستان قدرتی گیس کے ذخائر کے حوالے سے دنیا میں29واں بڑا ملک ہے جس کی تقریبا 24 ٹریلین مکعب فٹ ٹی سی ایف ٹی گیس نکالنے کی استعداد ہے تاہم یومیہ گیس پیداوار 4 ارب مکعب فٹ ہے ۔ یہ بات سنٹر برائے موسمیاتی سائنسز سندھ یونیورسٹی جامشورو کے ڈائریکٹر ڈاکٹر امان اللہ مہار نے انڈس کنسورشیم اورGo گرین نیٹ ورک کی جانب سے منعقدہ ورچوئل سیمینار میں گیس مانیٹر رپورٹ میں بتائی۔ یہ رپورٹ ماحولیات، موسمیاتی تبدیلی کیلئے کام کرنے والی تنظیم انڈس کنسورشیم اورJust انرجی ٹرانزیشن کے تعاون سے جاری کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سندھ میں 124گیس فیلڈہیں اور صوبہ ملکی گیس پیداوارکا  63 فیصدحصہ دیتا ہے۔سوئی بلوچستان میں قدرتی گیس کاسب سے بڑا ذخیرہ ہے جہاں سے 6 فیصدگیس ملتی ہے۔انہوں نے بتایا اس وقت پاکستان میں گیس ذخائرتیزی سے کم ہورہے ہیں اور سالانہ کھپت کے حساب سے صرف بارہ گنا ذخیرہ باقی ہے ۔پچھلے چند برسوں سے گیس کی شدید قلت کے باعث پاکستان ایل این جی پر انحصار کررہاہے ۔انہوں نے کہا اس صورتحال میں پاکستان کوتوانائی کے نئے ذرائع تلاش کرنے کے ساتھ ساتھ ماحول اورایل این جی کی درآمد پربھاری زرمبادلہ کو بچانا ہے ۔ ڈاکٹر امان اللہ مہار نے بتایا کہ پچھلے دس سالوں میں قدرتی گیس کا استعمال جس تیزی سے بڑھا ہے اسی حساب سے گیس ذخائرکم ہوئے  ہیں اورنتیجا ملک کو درآمدی ایل این جی پر انحصارکرنا پڑا ہے ۔انہوں نے کہا  پاکستان میں قدرتی گیس کاسب سے بڑا استعمال کنندہ پاورسیکٹر اوراس کے بعدگھریلو صارفین ہیں ۔انہوں نے کہا گیس چوری اوردیگروجوہات کی بناء پرگیس ترسیلی کمپنیو ں کو11 فیصد سے 14فیصد نقصانات کا بھی سامنا ہے ۔ڈاکٹر امان اللہ مہار نے بتایا کہ ابتدائی طور پرایل این جی کو گیس کی طلب ورسدمیں فرق کم کرنے کیلئے متعارف کرایا گیا مگر اب پاور پلانٹس کیلئے  اس کا حصہ25 فیصدتک پہنچ گیا ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ موجودہ قیمتوں نے ایل این جی خریداری کی حکمت عملی کو متاثرکیا ہے ۔ڈاکٹر امان اللہ مہار نے کہا ایل این جی میں کاربن کی زیادہ مقدارہے اس لئے ماحول کوبچانے کیلئے زیادہ صاف ایندھن کے ذرائع درکار ہیں ،انہوں نے بتایا کہ ایل این جی کو دوبارہ گیس بنانے،اسکی ٹرانسپورٹیشن ،استعمال اور پراسسنگ  کے عمل کے دوران میتھین لیک ہونے کاخطرہ ہوتا ہے جوماحول کیلئے نقصان دہ ہے ۔ ورچوئل سیمینار میں ماحولیاتی محقق فاطمہ فصیح نے پورٹ قاسم کراچی میں قائم تعبیر ایل این جی ٹرمینل کے بارے میں اپنی رپورٹ سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ٹرمینل کے ماحولیاتی اورسماجی اثرات کی رپورٹ کے چار سال بعداس علاقے میں ماحول،سماجی ومعاشی حالات میں تبدیلی آئی ہے اورسابقہ رپورٹ کو اس وقت متعلقہ نہیں سمجھا جاسکتا ۔انہوں نے کہا ایل این جی ٹرمینل ختم کرنے کیلئے تعبیر انرجی پرائیویٹ لمیٹڈکو ماحولیاتی اورسماجی اثرات کی تازہ رپورٹ تیارکرنی چاہیے اورٹرمینل تعمیرکے بعد وقوع پذیرہونے والی تبدیلیوں کو مدنظر رکھنا چاہیے ۔ انہوں نے کہا تازہ رپورٹ میںگرین ہائوس گیسوںکے اخراج سے ماحول کو پہنچنے والے اثرات کاجائزہ لینا چاہیے ۔ ایل این جی کی عالمی مارکیٹ میں قیمت سے حوالے سے بھی انہوں نے اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ مالی حوالے سے بھی توانا ئی کابہتر ذریعہ نہیں ہے۔