راولپنڈی (ویب نیوز)
رنگ روڈ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں راولپنڈی کے سابق کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود سمیت 2 ملزمان پر اینٹی کرپشن عدالت نے فرد جرم عائد کردی۔ ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا ہے،عدالت نے گواہوں کو شہادتوں کے لیے 14 جولائی کو طلب کر لیا۔ راولپنڈی کی مقامی اینٹی کرپشن عدالت میں راولپنڈی رنگ روڈ کیس کی سماعت ہوئی،ملزمان نے اینٹی کرپشن عدالت میں پیش ہو کر اپنی حاضری مکمل کروائی، ملزمان کی جانب سے برہان معظم ملک ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ عدالت نے سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود سمیت 2 ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی،تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا ہے۔ عدالت نے گواہوں کو شہادتوں کے لیے 14 جولائی کو طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی۔ملزمان کے خلاف محکمہ اینٹی کرپشن نے چالان عدالت میں جمع کروا رکھا ہے۔واضح رہے کہ پنجاب اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ(اے سی ای) نے رنگ روڈ اسکینڈل میں ملوث ہونے کے الزام میں راولپنڈی کے سابق کمشنر کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود اور سرکاری مقصد کے لیے زمین حاصل کرنے والے(لینڈ کلیکٹر) عباس تابش کو گرفتار کیا تھا۔ راولپنڈی رنگ روڈ 36 کلومیٹر پر محیط منصوبہ 2017 میں مسلم لیگ ن کے دور میں بنایا گیا، تاہم عملدرآمد کا آغاز پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہوا، منصوبہ 36 کلومیٹر سے بڑھا کر 65 کلومیٹر کر دیا گیا، راولپنڈی رنگ روڈ منصوبہ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اتھارٹی کی منظوری سے شروع کیا گیا، رنگ روڈ کے 4 راستے منصوبے میں شامل تھے لیکن مزید 5 راستے بنا دیے گئے ،جس کی وجہ سے رنگ روڈ اسکینڈل کے جرم میں چیئرمین لینڈ ایکوزیشن کمیشن وسیم تابش اور سابق کمشنر راولپنڈی کیپٹن ریٹائرڈ محمد محمود کو گرفتار کر لیا گیا۔ بعد ازاں راولپنڈی رنگ روڈ اسکینڈل کی تحقیقاتی رپورٹ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کو پیش کی گئی، حکومت نے رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کیا، اس وقت کے وزیراعظم عمران خان سے ڈی جی اینٹی کرپشن گوہر نفیس نے ملاقات کی ، اس ملاقات میں پی ٹی آئی دور حکومت کے مشیر احتساب شہزاد اکبر میں موجود تھے ، اس موقع پر ڈی جی اینٹی کرپشن نے وزیراعظم کو رنگ روڈ کی ابتدائی انکوائری رپورٹ پیش کی ، عمران خان کو ڈی جی اینٹی کرپشن کی طرف سے رپورٹ پر بریفنگ بھی دی گئی۔ ڈی جی اینٹی کرپشن پنجاب گوہرنفیس نے رنگ روڈ کرپشن اسکینڈل سے متعلق پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 22 مئی کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب نے رنگ روڈ کی انکوائری شروع کی ، جس میں ایک سو کے قریب افراد کے بیانات ریکارڈ کیے گئے ، اس دوران اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ پنجاب نے 21 ہزار صفحات کی چھان بین کی ، جن سے معلوم ہوا کہ حکومتی منظوری کے بغیر ہی 2 ارب 60 کروڑ روپے خرچ کیے گئے ، اراضی حصول کے واجبات کی ادائیگی کیلئے بھی کرپشن کی گئی ، اٹک میں اراضی کی خریداری کیلئے ایک ارب سے زائد رقم خرچ کی گئی۔