بھارتی مرکزی بینک ریزرو بینک آف انڈیا کی  رپورٹ

 

نئی دہلی (ویب نیوز)

بھارتی مرکزی بینک ریزرو بینک آف انڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق خلیجی ممالک سے آنے والی ترسیلات زر جو سن دو ہزار سولہ سترہ میں مجموعی رقم کے پچاس فیصد سے بھی زیادہ تھیں، دو ہزار اکیس بائیس میں کم ہو کر صرف تیس فیصد رہ گئیں۔  ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی طرف سے جاری کردہ ترسیلات زر سروے برائے سن دو ہزار بیس اکیس کے مطابق پہلے بھارت کو سب سے زیادہ غیر ملکی ترسیلات زر متحدہ عرب امارات سے آتی تھیں لیکن اب امریکہ نے اس خلیجی ملک کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سروے کے مطابق دو ہزار اکیس بائیس میں بھارت کی مجموعی ترسیلات زر کا 23 فیصد حصہ امریکہ سے آیا جبکہ متحدہ عرب امارات کا حصہ صرف 17 فیصد رہا۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں خلیجی ملکوں سے جو ترسیلات زر آتی تھیں، ان میں سے سب سے زیادہ جنوبی ریاستوں کیرالا، تامل ناڈو اور کرناٹک میں آتی تھیں لیکن سن دو ہزار سولہ سترہ کے مقابلے سن دو ہزار بیس اکیس میں ان تینوں یونین ریاستوں کے لیے ترسیلات زر کی آمد تقریبا نصف سے بھی کم ہو گئی۔بھارت کو سب سے زیادہ ترسیلات زر متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، کویت، بحرین، عمان اور قطر وغیرہ سے ملتی ہیں۔ متحدہ عرب امارات، جو بھارتیوں کے لیے ترسیلات زر کا سب سے بڑا ذریعہ تھا، اب دوسرے نمبر پر چلا گیا ہے۔ پہلے نمبر پر اب امریکہ آ گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ خلیجی خطے میں بھارتی تارکین وطن شہریوں کے لیے ملازمت کے مواقع کم ہوتے جا رہے ہیں۔بھارت کی جنوبی ریاستوں کے باشندوں کا خلیجی ملکوں میں خاصا غلبہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ ریاستیں ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ترسیلات زر حاصل کرتی تھیں۔ اب لیکن خلیجی ملکوں میں ملازمت کے مواقع ختم یا کم ہوتے جانے سے یہی ریاستیں سب سے زیادہ متاثر ہو رہی ہیں۔کیرالا ایک عرصے تک خلیجی ملکوں سے سب سے زیادہ ترسیلات زر حاصل کرتا تھا لیکن اب اس کی پہلی پوزیشن ختم ہو گئی ہے۔ اس وقت مہاراشٹر تمام بھارتی ریاستوں میں سب سے زیادہ ترسیلات زر حاصل کرنے والی یونین اسٹیٹ بن چکا ہے۔ اس کے بعد کیرالا، دہلی، کرناٹک، آندھرا پردیش، اتر پردیش، گجرات، پنجاب اور پھر بہار کا نام آتا ہے۔سن دو ہزار سولہ سترہ میں کیرالا کو بھارت کے لیے مجموعی ترسیلات زر کا 42 فیصد سے زیادہ حصہ ملا تھا مگر سن دو ہزار بیس اکیس میں یہ حصہ صرف 25 فیصد رہ گیا جب کہ مہاراشٹر کو لگ بھگ 35 فیصد حصہ ملا۔جنوبی ریاستوں میں خلیجی ملکوں سے ترسیلات زر میں کمی کی ایک بڑی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ اب اتر پردیش، بہار، اوڈیشہ اور مغربی بنگال سے نیم ہنر مند مزدور کہیں زیادہ تعداد میں باہر جانے لگے ہیں اور یہ خلیجی ملکوں میں جنوبی بھارتی ریاستوں کے باشندوں کے مقابلے میں کم اجرت پر کام کرنے کے لیے بھی تیار ہو جاتے ہیں۔بھارتی وزارت خارجہ کے اعداد و شمار کے مطابق سن 2020 میں خلیج کے جی سی سی ملکوں کے لیے 50 فیصد سے زیادہ امیگریشن کلیئرنس انہیں شمالی بھارتی ریاستوں کے افراد کے لیے دی گئی تھی۔میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا کہ تجزیہ کارو ں کے مطابق خلیجی ممالک بھارتی ملازمین کی تعداد میں مسلسل کمی کر رہے ہیں، جس سے بھارت آنے والی ترسیلات زر واضح طور پر متاثر ہو رہی ہیں۔ان تجزیہ کاروں کے مطابق خلیجی ممالک میں بھارتیوں کے لیے ملازمتوں کے مواقع میں کمی کے کئی اسباب ہیں۔ ان میں سے ایک اور غالبا سب سے اہم ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی وہ داخلی پالیسیاں ہیں، جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہیں۔خیال رہے کہ سن 2020 میں کووڈ کی وبا پھیلنے کے فورا بعد ہی مودی حکومت نے مسلمانوں کی ایک مذہبی جماعت تبلیغی جماعت اور اس سے وابستہ افراد پر ملک میں کورونا وائرس پھیلانے کے الزامات لگائے تھے اور بڑے پیمانے پر ان کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا گیا تھا۔ مودی حکومت کی ان کارروائیوں کے خلاف خلیج کے کئی ملکوں نے تشویش کا اظہار کیا تھا۔خلیجی ممالک کی بہت سی نجی کمپنیوں نے ان بھارتی ملازمین کو واپس بھیج دیا تھا جو سوشل میڈیا پر مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز باتیں پھیلانے میں سرگرم تھے۔بی جے پی کی سابق ترجمان نوپور شرما کے پیغمبر اسلام سے متعلق انتہائی متنازعہ ریمارکس کے بعد تو بھارتی باشندوں کے لیے خلیجی عرب ممالک میں صورت حال مزید خراب ہو گئی تھی۔