کراچی (ویب نیوز)

ماہرین امراض دماغ و اعصاب نے انکشاف کیا ہے کہ ملک کی 10 فیصد آبادی مختلف دماغی امراض میں مبتلا ہے، 22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں 250 کے قریب نیورولوجسٹ جبکہ 50 سے کم ملکی سطح پر نیورولوجی کے ہسپتالوں میں شعبہ جات مراکز ہیں جہاں نیورولوجی کی سہولیات میسر ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی کے صدر پروفیسر ڈاکٹر محمد واسع، چیئرمین پاکستان پارکنسنز سوسائٹی ڈاکٹر نادر علی سید اور ممبر مرکزی کمیٹی پاکستان سوسائٹی آف نیورولوجی پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک نے عالمی یوم دماغ کے موقع پر کراچی پریس کلب میں پریس کانفرنس کی۔ ہر سال، 22 جولائی دماغی صحت کے عالمی دن کے لیے وقف ہے، اس سال ورلڈ فیڈریشن آف نیورولوجی (ڈبلیو ایف این) نے دماغی صحت بہتر بنانے اور دماغی و اعصابی بیماریوں کے بوجھ کو کم کرنے کی مشترکہ کوشش پر توجہ مرکوز کی ہے۔  مقررین نے پریس کانفرنس میں کہا کہ پاکستان میں دماغی امراض روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے اسکے باوجو کہ ملکی سطح پر آبادی کی بنیاد پر دماغی امراض کی کوئی مربوط تحقیق نہیں ہوئی اسکے باوجود ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی 10 فیصد آبادی مختلف دماغی امراض میں مبتلا ہے۔22 کروڑ کی آبادی والے ملک میں صرف50 کے قریب مراکز میں نیورولوجسٹ کی سہولتیں میسر ہیں۔ پاکستان میں 1998 سے نیشنل ہیلتھ سروے نہیں کیا جاسکا جبکہ گزشتہ دو دہائیوں سے زائد عرصے سے ملک میں دماغی امراض سمیت مختلف بیماریوں میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ پروفیسر واسع نے کہا کہ بیماریوں کے بوجھ میں غیر معمولی اضافے کی وجہ سے مریضوں کے اہلخانہ پر معاشی ناہمواریوں کا بھی سامنا ہے۔ڈاکٹر نادر نے کہا کہ اس وقت دنیا میں ہر سال 9 ملین افراد فضائی آلودگی کی وجہ سے مختلف دماغی امراض میں مبتلا ہو کر موت کا شکار ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں بہت تیزی کے ساتھ فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے اگر اس صورتحال کا بروقت تدارک نہیں کیا گیا توآنے والے دنوں میں دماغی امراض اور اموات کی شرح میں مزید اضافہ ہونے کے امکانات ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومتی سطح پر فضائی آلودگی کو روکنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ آنے والی نسل کو آلودگی سے بچایا جا سکے۔مقررین نے کہا کہ پاکستان میں اس وقت آلودگی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے صاف ہوا،ماحول کی صفائی اور  شجر کاری کا کوئی انتظام نہیں جس سے آلودگی پر قابو پایا جاسکے،ہمارے شہروں میں صنعتی زون قائم ہونے کی وجہ سے زہر آلود  دھواں سانس اور دیگر زہنی امراض میں اضافے کا باعث بن رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ انسانی دماغ کو صاف ستھرا اور پرسکون ماحول درکار ہوتا ہے جس کے نتیجے میں انسان کا بیماریوں کے خلاف مدافعتی نظام مضبوط ہوتا  جبکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ماحول دوستی کے حوالے سے حکومتی اور پرائیویٹ سطح پر کوئی  انتظام موجود نہیں ہے جس کی  وجہ آئندہ سالوں میں دماغی امراض  کی شرح میں اضافے کے ساتھ ساتھ اموات میں بھی اضافے کا امکان ہے۔اس موقع پر پروفیسر ڈاکٹر عبدالمالک نے مشترکہ اعلامیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ جسمانی معذوری کی نمبر ایک وجہ دماغی امراض ہیں،امراض کے نتیجے میں اموات ہونے میں دماغی امراض کا بوجھ دوسرے نمبر پر ہے،ہر تین میں سے ایک انسان کو دماغی مرض لاحق ہے۔دنیا بھر میں دماغی امراض بہت بڑی تعداد میں انسان صحت کو متاثر کرتے ہیں۔ مائیگرین (درد شقیقہ) دنیا کے تقریبا تین بلین انسانوں کی روزمرہ زندگی نہ صرف متاثر کرتا ہے بلکے مختلف تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ عام طور پر پرائمری قسم کے سر درد 50 سال سے کم عمر کے انسانوں میں زیادہ پائے جاتے ہیں اور اسطرح کے سر درد کی وجہ سے جہاں انسان کی معیار زندگی خراب ہو جایا کرتی ہے وہیں بیماری کی وجہ سے روز مرہ کام کاج متاثر ہونے کے بعد ایک معاشی بحران کا باعث بن جایا کرتا ہے۔ فالج، یادداشت(الزائمر)، رعشہ، مرگی سمیت دیگر دماغی امراض پاکستان سمیت دنیا بھی کی آبادی میں بڑے تناسب سے پائے جاتے ہیں۔ ان دماغی عارضہ کے باعث جہاں جسمانی نظام صحت خرابی کا شکار ہو جاتا ہے وہیں ان امراض کے باعث خاندان سمیت معاشرے کو صحت مند انسانوں کی کمی واقع ہو جایا کرتی ہیں جسکے باعث فرد، خاندان و معاشرے ایک معاشی بحران کی جانب گامزن ہو جاتا ہے۔ عالمی یوم دماغ 2022 کے موقع پر آئیں سب مل کر دماغی امراض کے حوالے سے "آگاہی” پیدا کریں کیونکہ دماغی صحت ذہنی، سماجی و جسمانی تندرستی کے لیے "بنیاد” ہے۔ دماغی امراض سے "بچا” کیلئے مشترکہ کوششیں کریں کیونکہ دماغ کے بہت سے امراض سے "بچا” ممکن ہے۔ ان امراض کے حوالے سے وکالت  کریں تاکہ عالمی سطح پر ہونیوالی دماغی صحت کی کوششوں کا حصہ بنیں۔عالمی یوم دماغ 2022 کے موقع پر آئیں سب مل کر دماغی امراض کے حوالے سے تعلیم کو فروغ دیں، دماغی صحت کی "کلید” تعلیم ہے اور آئیں سب مل کر دماغی امراض کے خاتمے کے لئے وسائل، علاج اور بحالی تک مساوی "رسائی” کو ضروری بنائیں۔