ایس پی انویسٹی گیشن مقدمات کے چالان پیش نہ کرنیوالے تفتیشی افسروں کیخلاف کارروائیاں کریں،عدالت

لاہور (ویب نیوز)

لاہورہائی کورٹ نے مقدمات کے چالان پیش کرنے میں تاخیراورٹرائل کے عدم آغاز پرنوٹس لے لیا۔ عدالت نے پنجاب حکومت کو ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر محکمہ پراسیکیوشن کیخلاف کارروائیوں کا حکم دے دیا۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے نوٹس لیتے ہوئے حکم دیا کہ پنجاب حکومت محکمہ پراسیکیوشن کا نکمے افسروں اندورنی احتساب کرے۔ لاہورہائی کورٹ نے پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو بھی ناقص کارکردگی والے پراسیکیوٹرز کیخلاف کارروائیوں کا بھی حکم دیتے ہوئے کہا کہ ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالے پراسیکیوٹرز کیخلاف کارروائیاں کر کے رپورٹ ہائیکورٹ کو جمع کروائی جائے۔عدالت نے کہا کہ ایس پی انویسٹی گیشن مقدمات کے چالان پیش نہ کرنیوالے تفتیشی افسروں کیخلاف کارروائیاں کریں۔  مکمل عمل درآمد کیلئے فیصلے کی کاپی آئی جی پنجاب کو بھجوائی جائے۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں کہا کہ ہرڈی ایس پی انویسٹی گیشن مقدمات کے بر وقت چالان پیش کرنے کو یقینی بنائے۔ مقدمات کے چالان پیش کرنے میں تاخیر اور کارروائی میں کوتاہی پر متعلقہ ایس پی کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔لاہورہائیکورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پنجاب کی جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس زیر ٹرائل ملزم جن کے چالان پیش نہیں ہوئے ان کی رپورٹ کریمنل جسٹس کوآرڈینیشن کمیٹی کو پیش کریں۔ کسی بھی ملزم کو فرد جرم کے بغیر جیل میں قید نہ رکھا جائے۔  ملزموں کیخلاف مقدمات میں فرد جرم مقررہ وقت میں عائد کرنے کو یقینی بنایا جائے۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں کہا کہ آئی جی جیل خانہ جات بھی اس معاملے پر متعلقہ سپرنٹنڈنٹس سے جیل قوانین پرعملدرآمد کروائیں۔ کریمنل جسٹس کوآرڈینیشن کمیٹی کی صوبے بھر کی میٹنگز میں چالان بروقت جمع کروانے کے معاملے کو ترجیح دی جائے۔ فیصلے کی کاپی پنجاب کے تمام ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججوں کو بھی بھجوائی جائے۔عدالت نے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ تھانوں سے متعلقہ مجسٹریٹس مقدمات کے چالان طے شدہ مدت میں پیش کرنے کا حکم دیں۔ مقدمات کے چالان پیش نہ کرنیوالے تفتیشی افسروں کیخلاف کارروائیوں کے احکامات دیئے جائیں۔ قانون میں مقدمہ کا چالان 14 روز میں پیش کرنے کا کہا گیا اور 3 روز کا مزید رعایتی وقت بھی دیا گیا ہے۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلہ دیا کہ متعلقہ ایس ایچ اوز اور ان کے اعلی افسران نے 3 روز کے رعائتی وقت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اس پر عمل کرنا مناسب ہی نہیں سمجھا۔ فوجداری نظام انصاف میں مقدمات کے چالان بروقت اور فوری جمع کروانے مکمل میکانزم موجود ہے۔ یہاں مثر قانون کا مسئلہ نہیں بلکہ قانون پر فوری اور مکمل عملدرآمد کا مسئلہ ہے۔ عدالت میں فیصلے میں کہا کہ ایسا لگتا کہ تمام ریاستی حکام مقدمات کے چالان بروقت جمع نہ کروانے کے ذمہ دار ہیں۔  ریاست کے حکام نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں لاپرواہی برتی ہے۔ اس کیس میں متعلقہ مجسٹریٹ اپنے فرائض انجام دینے میں مکمل طور پر ناکام رہا۔ متعلقہ مجسٹریٹ نے فرائض ادا نہ کر کے اس کیس میں کریمنل جسٹس سسٹم کو ناکام کیا۔ ریمانڈ پیپرزسے نظر آتا ہے کہ مجسٹریٹ مسلسل ملزم کا جوڈیشل ریمانڈ دیتا رہا۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے فیصلے میں مذید کہا کہ مجسٹریٹ نے بلاجوازجوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کرکے قانون کی واضح خلاف ورزی کی۔ مجسٹریٹ نے جوڈیشل ریمانڈ میں توسیع کرتے وقت اپنے عدالتی ذہن کا استعمال ہی نہیں کیا۔  مجسٹریٹ اپنے علاقے کی تفتیش کا انچارج ہوتا ہے، اس کا فرض ہے وہ ہر فوجداری کیس کی تفتیش قانون کے مطابق مکمل کروائے۔ مجسٹریٹ نے پولیس کو مجبور ہی نہیں کیا کہ وہ رزاق کیخلاف مقدمہ کا چالان پیش کرے۔لاہورہائی کورٹ نے فیصلے میں کہا کہ مقدمے کا چالان پیش نہ کرنے کی وجہ بیان کرنے سے متعلق تفتیشی افسر کی کوئی بھی درخواست ریکارڈ پرموجود نہیں ہے۔ یہ کیس کریمنل جسٹس کوآرڈینیشن کمیٹی کی ناقص کارکردگی کو بھی ظاہرکرتا ہے۔جسٹس علی ضیا باجوہ نے سابق ڈولفن اہلکارکی قتل کے مقدمہ میں ضمانت کی درخواست پر فیصلہ جاری کیا۔محمد رزاق نے 2 سال 2 ماہ تک مقدمہ کا ٹرائل شروع نہ ہونے پر تیسری بار ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔سابق ڈولفن اہلکار رزاق پر محمد حسن بھٹی کو قتل کرنے کے الزام میں 2020 سے تھانہ اقبال ٹائون میں مقدمہ درج ہے۔ ڈولفن اہلکار رزاق نے مقدمہ میں ضمانت کیلئے تیسری بار درخواست دائر کی تھی۔ جسٹس علی ضیا باجوہ نے ملزم کو 2 لاکھ ضمانتی مچلکوں کے عوض رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے فیصلے میں کہا کہ ملزم کیخلاف 3 ماہ میں مقدمہ کا ٹرائل مکمل کیا جائے۔ ملزم اگر ٹرائل میں تاخیر پیدا کرے تو پراسیکیوشن یا مدعی مقدمہ ملزم کی ضمانت منسوخی کی درخواست دائر کرنے میں آزاد ہوں گے۔لاہورہائی کورٹ نے فیصلے میں مذید کہا کہ ملزم کو 2 سال 2 ماہ تک بغیر فرد جرم عائد کئے جیل میں قید رکھا گیا۔  درخواست گزارملزم اس کیس کے ٹرائل میں تاخیر کا ذمہ دار نہیں ہے۔ ریکارڈ پر ایسا کچھ موجود نہیں جو ملزم کو عادی اورخطرناک ملزم ظاہر کرے۔