ہیضہ، اسہال، آنتوں کی سوزش، ٹائیفائیڈ، ڈینگی، ملیریا پھیلنے کا خدشہ ہے،

اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس

اسلام آباد  (ویب نیوز)

پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن نے انتباہ کیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے   حکومت کی اس ضمن میں کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی ، ہیضہ، اسہال، آنتوں کی سوزش، ٹائیفائیڈ، ڈینگی، ملیریا پھیلنے کا خدشہ ہے، جس سے اموات میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ آلودہ پانی کے سبب ڈائریا اور ٹائیفائیڈ  ڈینگی اور ملیریا کے کیسز بڑھ سکتے ہیں،بیماریوں کے اثرات ان علاقوں میں بھی آئیں گے جو سیلاب سے متاثرہ نہیں ہیں،متاثرہ علاقوں میں ماں اور بچوں کے لیے دودھ اور غذا کی فراہمی مشکل تر ہوسکتی ہے جو کہ  خون کی شدید کمی اور کمزوری کا سبب بنے گی۔آئندہ دنوں میں پیما امریکہ کے تعاون سے اسپیشلسٹ کیمپس لگائے جائیں گے۔ نیز حاملہ خواتین کے لیے ماہر گائناکالوجسٹس کی نگرانی میں خصوصی موبائل ہسپتال بھی متاثرہ اضلاع میں بھجوائے جا رہے ہیں۔ان خیالات کا اظہار  پیماکے جنرل سیکرٹری پروفیسر محمد طاہر، صدر پیما پنجاب  ڈاکٹر شبیر احمد، جنرل سیکرٹری پیما پنجاب               ڈاکٹر افتخار برنی،  صدر پیما اسلام آبادڈاکٹر ممتاز حسین نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ،  پیماکے جنرل سیکرٹری پروفیسر محمد طاہرنے کہا کہ  وطن عزیز کو جب بھی مشکل حالات درپیش ہوئے، پیما کے ممبرز کی طرف سے ہر ممکن تعاون پیش کیا گیا۔ حالیہ غیر معمولی مون سون بارشوں کے باعث ملک کے بیشتر حصوں میں سیلاب سے بے پناہ تباہی ہوئی۔ متاثرہ علاقوں میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے اب تک ڈھائی ماہ کے دوران 1300  زائد افراد جاں بحق نو لاکھ پچاس ہزار مکانات تباہ  اور آٹھ لاکھ مویشی ہلاک ہوئے، دو لاکھ سے زائد ایکڑ رقبے پر کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ 149  پل اور 3451 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہو گئیں۔ مجموعی طور پر تین کروڑ تیس لاکھ 46 ہزار افراد اس سیلاب سے متاثر ہوئے ۔پیما بھرپورطور پرسیلاب سے متاثرہ علاقوں میں طبی سہولیات مہیا کرنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔پہلے فیز میں موبائل کلینکس اور کیمپس کلینک میں کام جاری ہے۔ دوسرے فیز میں ہم ریفرل سسٹم کے ذریعے مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے اسپیشلسٹ ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج کروائیں گے۔ الخدمت و دیگر بڑے ہسپتالوں کے ساتھ اشتراک  کے ذریعے علاج سے محروم انسانیت کو نفع پہنچائیں گے۔پیما کے رضاکار مرد اور خواتین ڈاکٹرز جنوبی پنجاب، بلوچستان، سندھ اور خیبر پختونخوا میں میڈیکل کیمپس اور موبائل یونٹس کے ذریعے بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی طبی ضروریات پوری کرنے اور انہیں وبائی امراض سے محفوظ رکھنے کے لیے مسلسل خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اب تک 50 سے زائد  مقامات پر 248 کیمپس لگائے جا چکے ہیں جس میں 496 کے قریب ڈاکٹرز اور744 کے قریب پیرا میڈیکس نے اپنی خدمات سرانجام دیں۔ ان کیمپس میں74،727 مریضوں کا مفت علاج کیا گیا اور مفت ادویات فراہم کی گئیں۔ یہ کیمپس الخدمت فانڈیشن کے تعاون سے منعقد کیے گئے اور پیما سینٹر کی جانب سے 2.25ملین کی ادویات فراہم کی گئیں۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کے مقابلے میں اس کام میں مزید وسعت کی ضرورت ہے جس کے پیش نظر میڈیکل کیمپس کے اس سلسلے کو پھیلایا جا رہا ہے۔ آئندہ دنوں میں اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ کے تعاون سے اسپیشلسٹ کیمپس منعقد کیے جائیں گے۔ نیز حاملہ خواتین کے لیے ماہر گائناکالوجسٹس کی نگرانی میں خصوصی موبائل ہسپتال بھی متاثرہ اضلاع میں بھجوائے جا رہے ہیں۔ جس میں الٹراسانڈ کی سہولت بھی موجود ہو گی ۔پیما کے رہنماؤں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اس وقت کا سب سے بڑا چیلنج وبائی امراض کا پھیلا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ متاثرہ علاقوں میں  وبائی امراض پھوٹنے کا خطرہ مسلسل بڑھ رہا ہے  اور بظاہر حکومتی اداروں کی جانب سے اس ضمن میں کوئی حکمت عملی سامنے نہیں آئی۔ ہم  حکومت اور دیگر تنظیموں کی توجہ ممکنہ طبی بحران کی جانب مبذول کرنا چاہتے ہیں کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نہ صرف وبائی امراض پھوٹ سکتے ہیں بلکہ ہیضہ، اسہال، آنتوں کی سوزش، ٹائیفائیڈ، ڈینگی، ملیریا پھیلنے کا خدشہ ہے، ان بیماریوں سے اموات میں اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔ سانپ کے کاٹے کے مریضوں کی تعداد بھی بڑھنے کا اندیشہ ہے۔سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں آلودہ پانی کے سبب ڈائریا اور ٹائیفائیڈ وبائی صورت اختیار کرسکتے ہیں۔ اور پانی جمع ہونے کی وجہ سے ڈینگی اور ملیریا کے کیسز بڑھ سکتے ہیں۔صفائی ستھرائی کا بندوبست نہ ہونے کے سبب جلدی امراض مثلا اسکیبیز اور فنگل انفیکشن بھی عام ہورہے ہیں۔ان بیماریوں کے اثرات ان علاقوں میں بھی آئیں گے جو سیلاب سے متاثرہ نہیں ہیں۔ان بیماریوں سے شیر خوار بچے، حاملہ خواتیں، بوڑھے زیادہ متاثر ہو سکتے ہیں۔متاثرہ علاقوں میں ماں اور بچوں کے لیے دودھ اور غذا کی فراہمی مشکل تر ہوسکتی ہے۔ جو کہ ماں اور بچے دونوں میں خون کی شدید کمی اور کمزوری کا سبب بنے گی۔معمر افراد جو کہ کسی ناقابلِ علاج یا مستقل مرض میں مبتلا ہوں جیسا کہ دل، سانس، جگر، گردے، ذیابیطس یا کینسر، ان کے پہلے سے جاری علاج میں رکاوٹ اور ان کی ادویات کی فراہمی میں مشکلات درپیش آسکتی ہیں۔ اموات میں اضافے کی یہ لہر خدانخواستہ موجودہ اموات سے کی گنا زیادہ ہو سکتی ہے اگر بروقت اقدام نہیں کیے گئے۔ہم حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ  اس ممکنہ طبی بحران سے نبٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی کا فوری اعلان کرے۔    طبی ماہرین کے پینل قائم کرے جو ان امراض خصوصا وبایی سے بچاو کے تدارک کے لیے قومی پالیسی مرتب کرے ۔ حکومت اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے فیلڈ اسپتالوں کا قیام کرے جس میں ان عام امراض کا بنیادی علاج اور بچاو کی سہولیات میسر ہوں۔ حکومت کے تحت کنٹرول سنٹر ہر ضلع میں قائم کیے جائیں ، جن کے ذریعے مختلف این جی اوز کے درمیان اطلاعات کا تبادلہ ہو تاکہ سہولیات کے ضیاع سے بچا جا سکے۔