•   لاپتا شہری کہاں سے آئے ہیں؟ عدالت کا استفسار
  • کچھ لوگوں نے مجھے گھر سے باہر بلایا، مجھ سے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ لیا گیا ، پانچ چھ گھنٹے بعد کلرکہارچھوڑ دیا،لاپتا شہری
  •   آپ اپنی فیملی کو تو بتاتے اگر 6 گھنٹے بعد انہوں نے چھوڑ دیا تھا ؟، عدالت
  •  میں ڈرا ہوا تھا اس لئے فیملی کو نہیں بتایا ،لاپتا شہری منیب اکرم کا جواب
  •  آپ کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے کوئی تحقیقات کیں؟،عدالت کا وزارت دفاع کے نمائندے سے استفسار
  • ہم نے تحقیقات کیں، لاپتا شہری ہماری کسی ایجنسی کے پاس نہیں تھا ،نمائندہ وزارت دفاع کا جواب

اسلام آباد (ویب نیوز)

اسلام آباد ہائیکورٹ میں لاپتا شہری منیب اکرم کو عدالت میں پیش کردیا گیا ،عدالت نے آئی جی پولیس کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 15 روز میں رجسٹرار ہائی کورٹ کو جمع کرنے کی ہدایت کردی۔وفاقی دارالحکومت اسلام آبادسے لاپتا شہری منیب اکرم واپس گھر پہنچ گیا، جسے پولیس نے پیر کی صبح اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش کردیا۔ پیر کو  اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کے روبرو لاپتا شہری کی بازیابی سے متعلق کیس کی سماعت  ہوئی جس میں عدالت نے استفسار کیا کہ لاپتا شہری کہاں سے آئے ہیں؟۔ عدالت کے سوال کرنے پر منیب اکرم نے بتایا کہ میں 19 اگست کو گھر پر سویا ہوا تھا، کچھ لوگوں نے مجھے باہر بلایا، مجھ سے لیپ ٹاپ کا پاس ورڈ لیا گیااور انہوں نے کہا کہ فیس بک، ٹوئٹر آج کے بعد استعمال نہیں کرنا، پھر پانچ چھ گھنٹے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا۔منیب اکرم نے عدالت کو بتایا کہ ان کی وجہ سے میں ڈر گیا تھا، انہوں نے مجھے کلر کہار اتار دیا ۔ میں 40 دن تک دوست کے پاس گائوں میں رہا۔ جو لوگ تھے، انہوں نے شلوار قمیص پہنی ہوئی تھی۔عدالت نے سوال کیاکہ  ایس ایچ او صاحب! آپ کے علاقے میں کیسے یہ لوگ گھس رہے ہیں؟۔ پولیس کے ڈی ایس پی لیگل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کورٹ یہ سمجھنا چاہتی ہے کہ یہ شہر میں اچانک کیا ہورہا ہے؟۔عدالت نے کہا کہ آپ اپنی فیملی کو تو بتاتے اگر 6 گھنٹے بعد انہوں نے چھوڑ دیا تھا ؟، جس پر منیب اکرم نے جواب دیا کہ میں ڈرا ہوا تھا اس لیے فیملی کو نہیں بتایا ۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی ناکامی ہے اور ریاست حفاظت کرنے میں ناکام ہے تو کوئی کیسے ہمت کرے گا ؟۔عدالت نے ریمارکس دیئے کہ باہر سے سی ٹی ڈیز والے آرہے ہیں کورٹ کس کو ذمہ دار ٹھہرائے؟کہانیاں نہ بتائیں، یہ کورٹ آپ کی وردی کا احترام کرتی ہے ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کورٹ کئی بار کہہ چکی ہے کہ یہ ناقابل برداشت ہے ۔ کورٹ کو یہ بتائیں کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے کہ آئندہ کوئی ایسا کرنے کی ہمت نہ کرے۔عدالت نے وزارت دفاع کے نمائندے سے استفسار کیا کہ آپ کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے اس کی کوئی تحقیقات کیں؟، جس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ہم نے تحقیقات کیں، لاپتا شہری ہماری کسی ایجنسی کے پاس نہیں تھا ۔ عدالت نے کہا کہ ہمارے پاس دنیا کی نمبر ون ایجنسی ہے۔اِن کا کام صرف یہ نہیں کہ وہ کہیں ہمارے پاس نہیں۔ ایجنسیز کا کام یہ بھی ہے کہ وہ تحقیقات کرکے بتائیں۔چیف جسٹس نے وزارت دفاع کے نمائندے سے استفسار کیا کہ آپ کے خیال میں یہ عدالت کسے ذمہ دار ٹھہرائے ؟ جب خود ریاست کی ایجنسیز اس میں ملوث ہو جائیں تو یہی تو مشکل ہے۔ اگر لڑکا نہ ملتا تو عدالت ان سب کو ذمہ دار ٹھہراتی۔ اس بچے کو جو تکلیف ہوئی ہے، اس کی ذمے داری کس پر ہے ؟  چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ دارالحکومت ہے کہیں تورا بورا میں تو ہم نہیں بیٹھے ہوئے۔عدالت نے کہا کہ یہ تشویشناک ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں ایسے واقعات ہو رہے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے آئی جی پولیس کو تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے رپورٹ 15 روز میں رجسٹرار ہائی کورٹ کو جمع کرنے کی ہدایت کردی۔ عدالت نے کہا کہ پٹیشنر کو کسی بھی قسم کی تکلیف نہیں پہنچنی چاہیے۔واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے جمعہ کے روز ہونے والی سماعت میں لاپتا شہری منیب اکرم کی پیر تک بازیابی کا حکم دیا تھا۔