President Dr Arif Alvi addressing the Joint Session of the Parliament, at Parliament House, Islamabad, on 06-10-2022.

انتخابات کا سال ہے، صاف شفاف انتخابات ملک و قوم کی ضرورت ہے ،  ڈاکٹر عارف علوی

سیاستدانوں کو سیاسی منافرت کو ختم کرتے ہوئے  انتخابی تاریخ پر مذاکرات کرنے چاہئیں، قبل ازوقت انتخابات ہوسکتے ہیں

عالمی امن کے داعی ہیں ، بھارت سے تنازع کشمیر کے حل کے بغیر تعلقات ممکن نہیں

سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے پاک فوج اور دیگر اداروں کی کاوشیں  انتہائی قابل تعریف ہیں

زائد اثاثوں کی جوابدہی ضروری ہے، احتساب کے ادارے کو مضبوط بنانا ہوگا،صاف شفاف احتساب ضروری ہے

ادارے کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے ، سیاستدان اتحاد کا مظاہرہ کریں گے تو قوم متحد ہوگی، سیاسی کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیںہے

صدر مملکت کا  پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب

روایت کے برعکس وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ ، آزاد کشمیر کے صدر،وزیراعظم اور حکومتی اتحاد کی قیادت موجود نہیں تھی

اسلام آباد( ویب  نیوز)

صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہا ہے کہ انتخابات کا سال ہے، صاف شفاف انتخابات ملک و قوم کی ضرورت ہے ، سیاستدانوں کو سیاسی منافرت کو ختم کرتے ہوئے  انتخابی تاریخ پر مذاکرات کرنے چاہئیں، قبل ازوقت انتخابات ہوسکتے ہیں، عالمی امن کے داعی ہیں ، بھارت سے تنازع کشمیر کے حل کے بغیر تعلقات ممکن نہیں ہیں،سیلاب متاثرین کی امداد کیلئے پاک فوج اور دیگر اداروں کی کاوشیں  انتہائی قابل تعریف ہیں، زائد اثاثوں کی جوابدہی ضروری ہے، احتساب کے ادارے کو مضبوط بنانا ہوگا،صاف شفاف احتساب ضروری ہے، ادارے کو سیاست میں ملوث نہ کیا جائے، سیاستدان اتحاد کا مظاہرہ کریں گے تو قوم متحد ہوگی، سیاسی کشیدگی کسی کے مفاد میں نہیںہے،۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے  جمعرات کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ روایت کے برعکس وزیراعظم، گورنرز، وزرائے اعلیٰ ، آزاد کشمیر کے صدر،وزیراعظم اور حکومتی اتحاد کی قیادت موجود نہیں تھی۔ صدر کے خطاب کے موقع پر انتہائی بدنظمی تھی، ارکان کی محدود تعداد  سے صدر نے خطاب کیا۔ غیر ملکی سفیر،چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی، بحریہ ، فضائیہ کے سربراہان اور بعض سیاسی رہنمائوں نے شرکت کی ۔ اجلاس کے دوران  جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق احمد خان نے  گرفتار ایم این اے علی وزیر خان کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ کرنے پر شدید احتجاج کیا  اور پلے کارڈ اٹھائے اور صدر کے سامنے آگئے۔

بعدازاں جماعت اسلامی کے ارکان نے  اے این پی، بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کے  ارکان نے اسپیکر ڈائس پر دھرنا دیدیا۔ صدر ڈاکٹر عارف علوی نے  چوتھا پارلیمانی سال مکمل ہونے اور پانچویں پارلیمانی سال کے آغاز پر مبارک باد پیش کرتے ہوئے کہا کہ میں آزادی کے 75 سال مکمل ہونے پر بھی  اس معزز ایوان کے اراکین اور پوری قوم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرنا چاہتا ہوں۔  یہاں پر آپ کے سامنے قائد اعظم کا قول پیش کرنا چاہتا ہوں  جس میں انہوں نے کہا  کہ خدا نے ہمیں ایک عظیم موقع دیا ہے کہ ہم ایک نئی ریاست کے معمار کے طور پر اپنی قابلیت کو ثابت کریں  اور کوئی یہ نہ کہ  سکے کہ ہم  اپنی ذمہ داری کے ساتھ  انصاف نہ کر سکے ۔میں اس ذمہ داری کا بھی احساس دلانا چاہتا ہوں  کہ آزادی کا حصول کتنا  مشکل ہے اور جمہوریت کو پروان چڑھتے  رہنا چاہیے    تاکہ  ہمارا   ملک مزید مضبوط ہو۔ میں اللہ تعالی کے حضور دعا گو ہوں کہ وہ ہمیں درپیش مسائل سے جلد نجات عطا فرمائے ۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر نے کہا کہ ہمیں  اس سال مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے  ایک  "سیلاب ِ عظیم ” کا سامنا ہے جس کی  وجہ سے ہمیں  شدید نقصان برداشت کرنا پڑا ۔   سیلاب کی وجہ سے اب تک کے اندازے کے مطابق تقریبا  15 سو سے زائد افراد جانبحق ہوئے    اور گھروں ، عمارتوں اور بنیادی ڈھانچے کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیموں کو  بھی نقصان پہنچا۔ اس کے علاوہ زرعی شعبے ،  جس سے پاکستان کی ایک بڑی آبادی کا روزگار وابستہ ہے ، کو بھی شدید نقصان پہنچا۔  ان تمام اداروں کا شکریہ خراج تحسین پیش کرتا ہوں  کہ جنہوں نے سیلاب متاثرین کو بچایا اور  انہیں مدد فراہم کی  ۔  ان اداروں میں سرفہرست  پاکستان کی افواج ہیں  جنہوں نے اس بحران میں  انتہائی منظم انداز میں لوگوں کی جانیں بچائیں۔  مخیر حضرات  اور نجی اداروں کا بھی شکریہ   جنہوں نے بڑے پیمانے پر   رقومات جمع کر کے سیلاب زدگان میں تقسیم کیں۔  بے نظیر انکم اسپورٹ پروگرام سے سیلاب متاثرین کو رقوم کی فراہمی ممکن بنائی گئی۔  اقوام متحدہ کے سیکرٹری  جنرل   انتونیو گوتریس کا بھی انتہائی مشکور جنہوں نے سیلاب متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور سیلاب متاثرین  کا احوال جاننے کیلئے ان سے ذاتی طور پر ملاقاتیں   بھی کی۔   160 ملین ڈالر کی فلیش اپیل اور  پھر اسے816  ملین ڈالر تک بڑھانے کی کال کو سراہتے ہیں اور اس سے سیلاب متاثرین کو ایک مربوط انداز میں امداد پہنچانے میں مدد ملے گی۔ سیکرٹری جنرل کا دورہ بین الاقوامی برادری کی توجہ سیلاب متاثرین کی حالت زار کی جانب مبذول کرانے اور بین الاقوامی امدادی کوششوں کو متحرک کرنے کا ایک موثر ذریعہ ثابت ہوا۔ہم امریکی کانگریس کے وفد کے بھی شکر گزار ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ  موسمیاتی تبدیلی اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے اس سیلاب کی شدت اور تباہی ماضی کی نسبت کہیں زیادہ تھی۔  پاکستان کا موسمیاتی تبدیلی اور عالمی سطح پر گرین ہائوس گیسز کے اخراج میں حصہ  ایک فیصد سے بھی کم ہے ، مگر پاکستان  کو موسمیاتی تبدیلی اور عالمی حدت کے منفی اور مضر اثرات کی  بہت بڑی قیمت چکانا پڑ رہی ہے ۔ ایمرجنسی ریلیف اور ریسکیو خدمات کی فراہمی کیلئے بوائے سکائوٹس اور گرلز گائیڈز  کی خدمات امداد اور ریسکیو اور زخمیوں کو ایمرجنسی طبی امداد فراہم کرنے کیلئے حاصل کی جاسکتی ہیں۔  آپ سب اس بات سے واقف ہیں کہ  قیام ِ پاکستان کے بعد بوائے اسکاٹس ایسوسی ایشن اور گرل اسکاٹس  کا قیام عمل میں لایا گیا۔  اس کے علاوہ ، پاکستان میں نیشنل کیڈٹ کور    کے ذریعے نوجوانوں کو  بنیادی فوجی تربیت کے علاوہ ایمرجنسی صورتوں سے نمٹنے کی بھی تربیت دی جاتی تھی۔ آج جب کے موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہمیں سیلاب کا سامنا ہے اور مستقبل میں بھی ایسی آفات کا خطرہ بڑھ گیا ہے تو ضرورت اس امر کی ہے ہم اپنے نوجوانوں کو بحران اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے علاوہ سی پی  آر اور  ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کی تربیت دیں۔  ہنگامی صورتحال کہیں بھی اور کسی بھی جگہ پیدا ہو سکتی ہے، ہمارے نوجوان ہمہ وقت ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار رہیں۔  تمام ادارے مل کر خون عطیہ کرنے کی مہم ، بحران  اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے نوجوان نسل کو تیار کریں ۔   صدر نے کہا کہ  سیلاب کی وجہ سے ہمارے زرعی شعبے کو شدید نقصان پہنچا اور لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئیں  اور یہ خطرہ ہے کہ  اہم فصلیں جس میں چاول ، گندم، کپاس  شامل ہیں ، ان کی پیداوار میں کمی واقع ہوگی ۔  حکومتوں کو فصلوں کی انشورنس کے حوالے سے کسان دوست  فصل انشورنس اسکیم لانے پر بھی غور کرنا چاہیے ۔  فصلوں کو پہنچے والے نقصان کا ازالہ کرنا چاہیے ۔   اگر  ہم  ڈیموں کی مدد سے سیلاب کے پانی کو محفوظ کر  لیں تو   نہ صرف خشک موسم میں  پانی  کی فراہمی ممکن ہو سکتی ہے  بلکہ پانی کو محفوظ کرنے کے جدید طریقوں کو اپنا کر ہم  زیر زمین پانی کی سطح کو بلند کر سکتے ہیں ، اپنے زمینی پانی کے ذخائر میں اضافہ کر سکتے ہیں  اور سیلابی ریلے  جو شدید تباہی کا باعث بنتے ہیں ان سے بھی محفوظ رہا جا سکتا ہے ۔ ڈاکٹر عارف علوی نے کہا کہ  مجھے سیلاب زدہ علاقوں  کا دورہ کرنے کا موقع ملا اور اس دوران اس امر کی نشاندہی کی گئی ہے کہ پہاڑوں   سے آنے والے سیلابی ریلے   کی تباہ کاریوں کو مختلف چھوٹے یا بڑے ڈیموں کی مدد سے  کم کیا جا سکتا ہے  اور یہ ڈیم پانی کی رفتار کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔نوشہرہ میں بندکی تعمیر کی وجہ سے شہر کو بڑے نقصان سے بچا لیا گیا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کیلئے ہمیں ایسے اقدامات پر خصوصی  توجہ دینا ہوگی ۔ ان اقدامات سے نہ صرف ہم سیلاب کی تباہی سے محفوظ رہ سکتے ہیں بلکہ اپنے پانی کے ذخائر میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں ۔ بارشوں  اور دریائوں سمیت مختلف آبی ذرائع سے تقریبا 150 ملین ایکڑ فٹ   پانی حاصل ہوتا ہے ، مگر  پانی ذخیرہ   نہ کرنے  اور اس کے مئوثر انتظام اور تقسیم  نہ ہونے کی وجہ سے  ایک بڑی مقدار میں پانی ضائع ہو جاتا ہے ۔  جتنی زمین اور پانی پاکستان کے پاس موجود ہے  اگر ہم زرعی شعبے کو جدید بنیادوں پر ترقی دیں تو نہ صرف ہم اپنی  زرعی ضروریات پوری کر سکتے ہیں  بلکہ انہیں برآمد بھی کر سکتے ہیں ۔   اس کیلئے ہمیں زرعی شعبے کو ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی دینا ہوگا۔  گزشتہ حکومت کے 8  اور موجودہ حکومت  کے   4 مہینوں کا  ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی  بڑی کامیابیوں میں دہشت گردی کے عفریت پر قابو پانا ہے ۔ دہشت گردی کا جس انداز سے پاکستان نے مقابلہ کیا  ، دنیا میں کہیں نہیں کیا گیا۔ ہم نے دہشت گردی کو بارڈر تک محدود رکھا حالانکہ ہمارے مغرب میں دہشت گردی کی وجہ سے بڑی تباہی ہوئی۔ دہشت گردی کو شکست دینا ہماری بڑی کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ ، 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو 40 سال تک پناہ دی ۔ کورونا وبا کا کامیابی سے مقابلہ کیا۔   این سی او سی  اور حکومتی پالیسی کی وجہ سے  اپنے پڑوسی  ملک اور دیگر ممالک کی نسبت  بہت کم نقصان کا سامنا کرنا پڑا ۔ انھوں نے کہا کہ پاکستان کی ایک بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے  اور ہماری آبادی کا تقریبا 63 فیصد حصہ  15 سے  33 سال    کے نوجوان افراد کا ہے جو کہ 35 ملین کے قریب بنتی ہے ۔    اگر ان  انسانی وسائل اور طاقت کو تعلیم سے آراستہ کردیا جائے اور انہیں قابل ِ قدر اور مناسب مہارتوں سے لیس کردیا جائے تو یہ پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا کو بدل سکتے ہیں ۔  اگر یہی انسانی وسائل اور افرادی قوت غیر تعلیم یافتہ رہیں  اور ان کے پاس کوئی ہنر نہ ہو تو  یہی آبادی بڑی عمر کو پہنچ کر پاکستان کیلئے بوجھ بن سکتی ہے ۔ اس لیے ہماری قوم کیلئے تعلیم بے حد ضروری ہے ۔ پاکستان میں اسکول نہ جانے والے بچوں کی شرح تقریبا  19 فیصدہے  ۔  ہمیں ان بچوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کرنے کو اولین ترجیح دینا ہوگی۔   اس کے ساتھ ، ہمیں اپنے لوگوں کو ہنر پر مبنی تعلیم دینا بھی ہوگی ۔  بچوں کو مڈل اسکول کی سطح سے ہنر سکھائے جائیں ۔  ہمارے لیے اپنی افرادی قوت کو ہنر مند بنانا ناگزیر ہو چکا ہے  ورنہ ہم اسی طرح  بے ہنر افراد قوت برآمد کرتے رہیں گے  ۔ پاکستان سالانہ   30 ہزار کے قریب آئی ٹی گریجوایٹس پیدا کرتا ہے  اور اس کے مقابلے میں ہمارا پڑوسی ملک تقریبا 8 لاکھ کے قریب آئی ٹی گریجوایٹس پیدا کرتا ہے ۔ ہم اپنی افرادی قوت کو آئی ٹی کی مہارتیں سکھائے بغیر دنیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔صدر ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ    پاکستان سائبر صلاحیتوں کے اعتبار سے انتہائی سستے اور تیزرفتاری  کے ساتھ اپنا مقام بنا سکتا ہے  مگر اس کیلئے ہماری فورسز کے ساتھ ساتھ تمام شعبوں کے اداروں اور افراد کو محنت کرنے کی ضرورت ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں بچوں کی صحت اور انہیں ماں کا دودھ پلانے کے معاملے پر قرآن کے احکامات کو معاشرے میں عام کرنے پر توجہ دینا ہوگی ۔ ماں اور بچوں کی ذہنی و جسمانی کمزوری اور غذائی قلت  کے مسئلے پر قابو پانے کیلئے بے نظیرانکم اسپورٹ اور احساس پروگرام کے تحت گھروں تک غذائی پیکٹس کی فراہمی ممکن بنائی جا رہی ہے۔  اس کے علاوہ ، ہمیں اپنے کھانے پینے کی عادات میں توازن اور تنوع لانے کی ضرورت ہے تاکہ ہماری غذائی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کیا  جا سکے ۔ ہمیں بیماریوں کے علاج کے علاوہ ، بیماریوں کے پھیلا کو روکنے اور احتیاطی تدابیر   اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں پاکستان میں چھاتی کے کینسر کے حوالے سے بھی آگاہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مرض کی بروقت تشخیص اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں اس کینسر سے شرح اموات بہت زیادہ ہے ۔    ہمارے معاشرے میں بڑھتے ہوئے تشدد اور غیر معقول رویوں میں اضافے ،  خودکشیاں جن اس کی تعداد تقریبا 19 ہزار تھی ،  اپنے پیاروں سمیت دوسروں کو شدید زخمی  اور قتل کرنے کے واقعات  بھی اس امر کی عکاسی کرتے ہیں ۔  نفسیاتی مسائل کی وجہ سے منشیات کا استعمال بھی بڑھ جاتا ہے اور تحقیق کے مطابق اسکول اور کالج جانے والے بچے زیادہ دبا کا شکار ہوتے ہیں ۔ ملک میں ذہنی و نفسیاتی صحت کا  نظام تشکیل دینے کے لیے تمام ضروری اقدامات اٹھائیں ۔ علاوہ ازیں ، ہمارے ملک کے صحت کے نظام کو تقریبا 7 لاکھ نرسوں کی شدید کمی کا سامنا ہے  جبکہ ہمارے ہاں نرسوں کی تعداد تقریبا 2  لاکھ ہے ۔ اس کمی کی وجہ سے سرکاری اور نجی دونوں شعبے شدید دبا کا شکار ہیں ۔  خواتین کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ خواتین کو گھروں تک محدود رکھنے کا تصور مذہب کے بجائے ہماری سماجی اور ثقافتی روایات میں سے نکلا ہے ۔یہ ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ ہم عورت کا تحفظ یقینی بنائیں اور انہیں کام کی جگہ پر بالخصوص محفوظ ماحول فراہم کریں۔  ہمیں خواتین کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے اہداف کو جلد از جلد مقرر کرنے کی ضرورت ہے۔ خواتین کے حقوق اور ان کی معاشرتی شمولیت بڑھانے کے بارے میں آگاہی  پیدا کرنا ہوگی ۔  تمام شعبہ زندگی میں  کام کرنے کے یکساں مواقع اور ان کے حقوق کا احترام بھی یقینی بنانا ہوگا۔  معیشت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کورونا کی وجہ سے ہماری معیشت کو نقصان پہنچا مگر ہم نے حفاظتی تدابیر اور جزوی لاک ڈان کی مدد سے صورتحال پر کافی حد تک  قابو پایا۔  کورونا کی وجہ سے دنیا بھر میں طلب اور رسد کے  مسائل پیدا ہوئے ۔  یوکرین -روس جنگ  کے عالمی سطح پر بھی اثرات ہوئے اور اس کا پاکستان پر بھی اثر  پڑا۔   موجودہ  وزیر اعظم  اور پچھلی حکومت  کے وزیر اعظم بھی اس بات پر زور دیتے رہے کہ ہمیں معاشی اعتبار سے اپنے پیروں پر کھڑا ہونا پڑے گا۔ پچھلے سال ہماری معیشت نے تیزی سے ترقی کی اور 5.97 فیصد کی متاثر کن شرح نمو ریکارڈ کی گئی ۔ ہم نے یہ شرح نمو کورونا وبا ، امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں حکومت کی تبدیلی، روس یوکرین تنازعہ سمیت دیگر مسائل کے منفی اثرات کے باوجود حاصل کی۔ ان مسائل کی وجہ سے ہماری معاشی نمو کو جھٹکا بھی لگا مگر مجھے امید ہے کہ ہم اپنے موجودہ معاشی مسائل پر قابو پالیں گے ۔  اس کیلئے ہمیں اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا ہوگا  اور تیزی سے ترقی کرتے ہوئے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے پر توجہ دینا ہوگی ۔ تمام شعبے کے افراد  یہ چاہتے ہیں کہ  پالیسیوں کو تسلسل حاصل ہو   کیونکہ اس کے بغیر نہ تو سرمایہ کاری کو راغب کیا جاسکتا ہے اور  نہ ہی پائیدار ترقی ممکن ہو سکے گی ۔ صدر مملکت کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو آئی ایم ایف کے ساتھ کامیاب مذاکرات پر مبارکباد پیش کرتا ہوں ۔ ان اقدامات سے ملک کو اقتصادی اور مالیاتی مسائل پر قابو پانے میں مدد ملے گی ۔  گزشتہ دنوں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی واقع ہوئی اور ڈالر  کی قیمت 240 روپے تک پہنچ گئی جو کہ اب تقریبا 223 روپے تک پہنچ گئی ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ مستقبل میں روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مزید مستحکم ہوگی۔ ڈاکٹر عارف علوی نے مزید کہا کہ  قائد اعظم نے بدعنوانی ، اقربا پروری اور سفارش ختم  کرنے پر خصوصی زور دیا  اور ہمیں سول اداروں سمیت ملک  میں تعیناتیوں  میں میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔ میں اس ایوان کی توجہ میڈیا  کو مبینہ طور پر ہراساں کرنے اور تشدد کے واقعات کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں اور میں نے اس سلسلے میں وزیر اعظم صاحب کو خط بھی لکھا۔   میڈیا کو ہراساں کرنے سے پاکستانی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچے گا۔ میرے خط میں تمام صحافیوں کا نام لینا ممکن نہیں  تھا مگر میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔  میڈیا اور صحافیوں کا تحفظ اور ان کی آزادی یقینی بنانا ہم سب کی اجتماعی اور آئینی اور قانونی ذمہ داری ہے ۔ ہمارا  آئین آزادی صحافت  کی  یقینی دہانی کراتا ہے   اور تنقید کرنے کی بھی آزادی دیتا ہے ۔ جدید دور کے مسائل کو پابندیاں لگا کر اور لوگوں کے خلاف کاروائی کر نے  کے فرسودہ اور پرانے طریقوں سے حل نہیں کیا جا سکتا  ۔  غیبت اور فیک نیوز کے حوالے سے سے کہا کہان دونوں چیزوں کو بہت تباہ کن سمجھتا ہوں  اور قرآن میں غیبت کو بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔  غیبت سوشل  میڈیا اور واٹس ایپ جیسی ایپس کے ذریعے  فروغ پا رہی ہے ۔  ہم اپنی پسند اور  تعصب کے اعتبار سے معلومات کو بغیر تصدیق کے آگے بھیج دیتے ہیں ۔  سیاق و سباق سے ہٹ کر بات بتانا اور پھیلانا بھی غیبت کے زمرے میں آتا ہے ۔    اس سلسلے میں  ، آج کل آڈیو لیکس سامنے آئی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ  ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے ۔  یہ ایک انتہائی سنگین پیش رفت ہے اور اس پر ہنگامی بنیادوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ فریقین میں سے کسی ایک کی رضامندی کے بغیر افرادکے درمیان نجی گفتگو کو عام کرنا اخلاقی اور قانونی طور پر غلط ہے۔  یہ ایک خوش آئند امر ہے حکومت نے اس سلسلے میں ایک کمیٹی تشکیل دی  ہے  کہ آڈیو لیکس کی تحقیقات ہونی چاہیے ۔  میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر یہ رحجان جاری رہا تو اہم سرکاری دفاتر میں کھل کر کوئی بھی بات نہیں کر سکے گا۔   میں خفیہ انداز سے ریکارڈ کی ہوئی آڈیو لیکس کو نہ ہی سنتا ہوں اور نہ ہی انہیں اہمیت دیتا ہوں۔  صدر مملکت نے پاک چین اقتصادی راہدای کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے حوالے سے ہمارے ملک میں مثبت رفتار سے پیش رفت ہو رہی ہے ۔ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے زیادہ گہری ہے ۔ چین کے ساتھ ہمارے سدا بہار   ، دیرینہ اور پائیدار تعلقات ہیں ۔   چین کے ساتھ ہمارے  تعلقات 60 کی دہائی سے بڑے متوازن انداز سے  استوار ہیں ۔  ہمارے تعلقات  کی بنیاد صرف مفادات نہیں بلکہ دوستی پر مبنی ہیں ۔  چین کے ساتھ ہمارا بہترین تعاون ہے اور یہ مستقبل میں بھی جاری رہیں گے ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، امریکہ ہمارا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر   اور دیرینہ دوست ہے ۔  50 اور 60 کی دہائی سے شروع ہونے والے اس تعلق کو ہم مزید جاری رکھنے کے خواہاں ہیں ۔    پاک -امریکہ تعلقات مزید بہتر ہو سکتے ہیں ۔ہم تمام ممالک کے ساتھ باہمی وقار  اور عزت و احترام پر مبنی تعلقات کے خواہاں ہیں۔   ہم امید کرتے ہیں کہ جی ایس پی پلس کے حوالے سے پاکستان اور یورپی ممالک کے مابین تعاون جاری رہے گا۔  ہم یورپ کے تمام ممالک کے ساتھ  اچھے تعلقات کے حامل ہیں اور پاکستان  نے افغانستان سے افواج کے انخلا کے دوران بھی خدمات  اور راہداری فراہم کی  اور ہم امید رکھتے ہیں کہ مستقبل میں پاکستان اور یورپ کے تعلقات کو مزید تقویت ملے گی۔  سعودی عرب نے ہر مشکل میں ہمارا ساتھ دیا اور  انہوں نے ہمیں فنڈز کی فراہمی بھی یقینی بنائی۔   حرمین شریفین  کی سیکورٹی اور تحفظ کیلئے ہم اپنی جانیں بھی دے سکتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ ، پاکستان اور ترکیہ  باہمی احترام، خلوص اور قریبی تعاون کی تاریخ کے حامل ہیں جس کی بنیاد مشترکہ مذہبی، ثقافتی اور لسانی میراث ہے۔  پاکستانی -ترکیہ دوستی حالیہ نہیں بلکہ تاریخی ہے اور  19 صدی کے اواخر  میں بھی یہاں سے ترکیہ میں زلزلے اور جنگ کے سلسلے میں امداد فراہم کی جاتی رہی ہے ۔ انھوںنے کہا کہ  پاکستان ایک پرامن، دوستانہ، مستحکم اور خوشحال  افغانستان کا خواہاں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پرامن افغانستان ہمارے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے۔ ہم افغانستان میں پائیدار امن  اور اس کے استحکام کے خواہاں ہیں کیونکہ افغانستان میں قیام امن کا پاکستان کو  بھی فائدہ پہنچے گا۔ ہم افغانستان کو اپنے خطے کے لیے تجارتی اور توانائی کے رابطے کے راستے کے طور پر ابھرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ پاکستان ہمیشہ کی طرح اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا ہے۔ انھوںنے کہاکہ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ آپ سب کی کاوشوں کی بدولت ہم فیٹف کی گرے لسٹ سے نکل جائیں گے ۔   پاکستان کی خواہش  ہے کہ ہندوستان کے ساتھ دوستی اور امن ہو،  مگر یہ خواہش ہندوستان کے کشمیر میں اقدامات کی وجہ سے پروان  نہیں چڑھ سکتی۔ کشمیر کے مسئلے کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیاجانا چاہیے ۔ ہندوستان کے ساتھ تمام معاملات خصوصا کشمیر کے مسئلے پر گفتگو ہونی چاہیے۔  پاکستان اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ کھڑا ہے اور ساتھ کھڑا رہے گا۔ تقسیم کے بعد ہندوستان  میں رہ جانے والے مسلمان ہندوتوا کی  وجہ سے خود کو علیحدہ  محسوس کر رہے ۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ سرکاری سطح پر اور ان کے زیر سایہ کارروائیاں ہوتی ہیں۔ اس سے نہ صرف مسلمانوں بلکہ بھارتی معاشرے کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے   اور یہ نقصان خود ہندوستان اپنے آپ کو پہنچا رہا ہے ۔بدعنوانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ کرپشن کے مسئلے پر میں سمجھتا ہوں کہ نیب کو مضبوط کرنا چاہیے ۔ اس میں ایک تو اس امر کو یقینی بنانا ہوگا کہ نیب کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کیاجائے ۔  دوسرا ، اسے دوسروں پر ظلم اور ناانصافی کیلئے استعمال نہ کیا جائے  ۔    دنیا کرپشن کے جرم کو  دیگر جرائم کی طرح نہیں دیکھتی۔ میرے خلاف دہشت گردی کا الزام لگا کہ یہ بندوقیں سپلائی کرتا تھا۔ آپ ذرا سوچیں  کہ دہشت گردی کے خلاف استعمال کرنے کے لیے  لائے گئے قانون  کو  جب سیاسی طور پر استعمال کیا جائے گا  تو یہ ایسا ہی ہو گا کہ مچھر مارنیکیلئے توپ کا استعمال کیا جائے ۔  یہ قانون کا صحیح استعمال نہیں۔ اس قانون کو توڑ مڑورکر ہر جگہ استعمال کرنا ٹھیک نہیں۔ آپ نے دیکھا کہ توہین   رسالت  کے قوانین کا بھی جب غلط استعمال  یا تشریح ہوتی ہے تو  اس کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ لہذا، میری گزارش ہے کہ قوانین کو ان کے صحیح سیاق و سباق کے مطابق استعمال کیا جائے ۔ انھوں نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں  کہ  سیاسی تقسیم  کو ختم کرنے کیلئے سب سے بہترین  حل  منصفانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد ہے ۔ یہ سال انتخابات کا سال ہے  تاہم انتخابات کا منعقد کرانا ایک سیاسی فیصلہ ہے۔  میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ  قوم کو اس ہیجانی کیفیت سے نکالنے کے لیے  ضروری ہے کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر  الیکشن کی تاریخ طے کرلیں ۔   سیاسی قیادت  کے مابین  اس معاملے پر چند مہینے کا اختلاف ہے جس کا حل باہمی مشاورت سے  ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔  معاملے کو آپ سب مل بیٹھ کر طے کرلیں  تو موجودہ تقسیم اور سیاسی صورتحال کو بہتر کیا جاسکتا ہے ۔الیکٹرونک ووٹنگ مشین  کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ  الیکشن کے دن  شفافیت کیلئے  یہ مشین ضروری ہے۔ ای وی ایم پیچھے نہیں دیکھ سکتی کہ الیکشن سے پہلے کیا ہوا ، کس کو ووٹ ڈالنے کے لیے کس نے مجبور کیا ؟  یہ مشین صرف الیکشن کے دن اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوں  ۔ آخر میں  سمندر پار پاکستانیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ کہ وہ اپنی  محنت سے کمائی گئی رقوم  پاکستان بھیجتے ہیں ۔  ان کے ووٹ کا حق سپریم کورٹ نے  بھی قبول کر لیا ہے۔ لوگ انہیں اکثر یہ طعنہ دیتے اگر آپ کو پاکستان سے اتنی ہی محبت ہے تو آپ وطن واپس کیوں نہیں لوٹ آتے ۔ جو لوگ روزگار کے سلسلے میں باہر مقیم ہیں ان کو ووٹ کیلئے سہولت فراہم کرنے کے سلسلے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ  بھی  موجود ہے  ۔ تو اس بات کے لیے حکومت بھی  احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس کوشش کو   اختتام تک پہنچانا چاہیے۔

#/S