وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے ایف آئی آر کے اندراج سے منع کیا ہے ،آئی جی پنجاب

 ایف آئی اندراج نہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ابھی تک پولیس کی تفتیش ہی شروع نہیں ہوئی،چیف جسٹس عمرعطابندیال

اگر 24گھنٹے تک اس معاملہ کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی تو پھر عدالت اس کا خود نوٹس لے گی،چیف جسٹس

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئی جی پنجاب پولیس فیصل شاہکار کو پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر ہونے والے حملے کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس نے قراردیا ہے کہ اگر 24گھنٹے میں ایف آئی آر درج نہ ہوئی تو وہ ازخودنوٹس لیں گے۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الااحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ خان آفریدی اور جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی پر مشتمل بینچ نے عمران خان کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے دائر توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کی۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجہ کو جواب جمع کرانے کے لئے ایک ہفتے کی مہلت دے دی۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں موجود آئی جی پنجاب پولیس کو مخاطب کرتے ہوئے چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ میں نے آپ کی بین الاقوامی اچیومنٹس کے بارے میں سنا ہے لیکن عمران خان پر ہونے والے حملے کی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اس حوالہ سے بتائیں۔ اس پر آئی جی پنجاب پولیس نے کہا کہ ایف آئی آر کے اندراج کے معاملہ پر صوبائی حکومت کے کچھ تحفظات ہیںاور کچھ اختلافات ہیں جس کے باعث ابھی تک ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ آئی جی پنجاب پولیس کا کہنا تھا کہ انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے ایف آئی آر کے اندراج سے منع کیا ہے لیکن ان کے پاس دوسرے آپشنز بھی موجود ہیں۔ اس پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہمیں دوسرے آپشنز کے سے متعلق نہ بتائیں جو پراسیکیوشن کا معاملہ تھا وہ یہ تھا کہ پہلے ایف آئی آر درج کرتے ، عدالت آئی جی پنجاب کے پیچھے کھڑی ہے ان کو سپورٹ کرے گی، ان کا ساتھ دے گی جب تک وہ قانونی کارروائی مکمل کریں۔چیف جسٹس  نے کہا کہ آئی جی پنجاب پولیس کا جو گلہ ہے کہ صوبائی حکومت ان کو ایف آئی آر کے اندراج سے منع کررہی ہے ، اس معاملہ میں ان کو خود کریمنل انویسٹی گیشن کا اختیار ہے کہ وہ ایف آئی آر کا اندراج کرسکتے ہیں، ریاست ایف آئی آر کے اندراج کاحق رکھتی ہے، قومی لیڈر پر حملہ ہوا ہے اور اب تک 90گھنٹے گزر چکے ہیں اورابھی تک اس معاملہ کا نوٹس نہیں لیا گیا اور ایف آئی آر کا اندراج نہیں ہوا۔ چیف جسٹس  نے کہا کہ ایف آئی اندراج نہ ہونے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ابھی تک پولیس کی تفتیش ہی شروع نہیں ہوئی اور جائے وقوعہ پر جو شواہد ہیں ان کو بھی مٹا دیا گیا ہوگا، اس طرح کی جو تفتیش ہوتی ہے وہ عدالت کی نظر میں قابل قبول نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کو ہدایت کی کہ عمران خان پر حملے کی ایف آئی آر کے اندراج کے ساتھ ، ساتھ ایک ایماندرار افسر کی سربراہی میں عمران خان پر حملے کی تحقیقات کی جائیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی ہم اس معاملہ کا ازخود نوٹس نہیں لے رہے لیکن اگر 24گھنٹے تک اس معاملہ کی ایف آئی آر درج نہیں ہوتی تو پھر عدالت اس کا خود نوٹس لے گی اور پھراس پورے معاملہ کو خود دیکھے گی اوراس کی تفتیش کرے گی۔ چیف جسٹس  نے کہا کہ ہم نے آئی جی پنجاب کا گزشتہ روز انٹرنیٹ پر استعفیٰ دیکھا جو ابھی تک قبول نہیں ہو ا اورو ہ ابھی بھی پنجاب کے ایک اعلیٰ ترین افسر کے طور پر کام کررہے ہیں اس لئے فوری طور پر مقدمہ کا اندراج کریں جبکہ عدالت نے عمران خان کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت ایک ہفتے کے لئے ملتوی کردی۔