•  اعظم سواتی کے خلاف مقدمے پر شور مچانے والے خود کیا کر رہے ہیں؟، عدالت کا اظہارِ برہمی
  •  ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور خیبرپختونخوا کو نوٹسز جاری، مدعی، آکر بتائیں کس کی ایماء پراورکس طرح یہ ایف آئی آردرج کی گئیں،عدالت
  • وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل،وائس چیئرمین اسلام آباد بارکونسل اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد شاہد زبیر ی کو بھی معاونت کے لئے طلب
  •  کیا یہ بہت بڑے دہشت گرد ہیں ،اگر کوئی وفاقی وزیر پی ٹی وی یا کسی اور چینل پر پریس کانفرنس کرتا ہے تواس میں چینل کی انتظامیہ کا کیا قصور، جسٹس طارق محمود جہانگیری
  • 18ویں آئینی ترمیم اپنی جگہ پر لیکن اسلام آباد کے شہریوں کے اوردیگرعام شہریوں کے بھی اپنے حقوق ہیں
  • اگر ہم دہشت گردی کے مقدمات میںلوگوں گھسیٹتے ہیں تو روزانہ پورے پاکستان میں ہزاروں ایف آئی آرز لوگوں کے خلاف درج ہو جائیںگی
  • یہ سلسلہ ہمیں روکنا پڑے گااس سے ملک میں امن وامان کا مسئلہ بڑھے گا اور سسٹم ڈی ریل ہونے کا خطرہ ہے،ریمارکس

اسلام آباد (ویب نیوز)

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے دہشت گردی کے کیسزمیں پاکستان ٹیلی ویژن انتظامیہ کے خلاف ایف آئی آرز پر کارروائی معطل کردی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی آرز کا اندراج عدالت کی اجازت سے مشروط کردیااورصوبوںکو مزید کارروائی کرنے سے روک دیا اور اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اعظم سواتی کے خلاف مقدمے پر شور مچانے والے خود کیا کر رہے ہیں؟۔ وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل،وائس چیئرمین اسلام آباد بارکونسل اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد شاہد زبیر ی کو بھی معاونت کے لئے طلب کرلیا۔۔سیکرٹری وزارت اطلاعات ونشریات وچیئرپرسن پاکستان ٹیلی ویژن شاہیرہ شاہد،ایڈیشنل سیکرٹری اطلاعات، ایم ڈی پی ٹی وی سہیل علی خان ، ڈائریکٹر نیوز مرزا راشد بیگ سمیت دیگر کے خلاف دہشت گردی کی ایف آئی آر زدرج کی گئی تھیں۔مقدمات وفاقی وزیر میاںجاوید لطیف کی14ستمبر کی پی ٹی وی سمیت36چینلز پر دکھائی جانے والی پریس کانفرنس پر صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں درج کئے گئے تھے۔ایف آئی آرز میں ایم ڈی پی ٹی وی، چیئرمین اور ڈائریکٹر نیوز کو فریق بنایا گیا تھااوران پر معاونت کا الزام لگایا گیا تھا۔دوران سماعت لیگل ایڈوائزر پی ٹی وی راجہ مقسط ایڈووکیٹ اور وکیل سلطان حیات رانجھا عدالت میںپیش ہوئے اور اپنے دلائل مکمل کیئے۔جسٹس طارق محمود جہانگیری نے برہمی کااظہا رکرتے ہوئے کہا کہ کیا یہ بہت بڑے دہشت گرد ہیں اوراگر کوئی وفاقی وزیر پی ٹی وی یا کسی اور چینل پر پریس کانفرنس کرتا ہے تواس میں چینل کی انتظامیہ کا کیا قصور ہے۔ عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب اور خیبرپختونخوا کو نوٹسز جاری کردیئے ہیں۔ عدالت نے کہا ہے کہ ہم پنجاب اور کے پی کے میں جو ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں ان ایف آئی آرز کے مدعیوںکو بلائیں گے۔ عدالت نے مدعیوں کو نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ آکر بتائیں کس کی ایماء پراورکس طرح یہ ایف آئی آردرج کی گئیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 18ویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کے پولیس کے سلسلہ میں اختیارات کم ہو گئے ہیں اوراختیارنہیںرہا۔ عدالت کا کہنا تھا کہ 18ویں آئینی ترمیم اپنی جگہ پر لیکن اسلام آباد کے شہریوں کے اوردیگرعام شہریوں کے بھی اپنے حقوق ہیںاوراگر ہم دہشت گردی کے مقدمات میںلوگوں گھسیٹتے ہیں تو روزانہ پورے پاکستان میں ہزاروں ایف آئی آرز لوگوں کے خلاف درج ہو جائیںگی، یہ سلسلہ ہمیں روکنا پڑے گااس سے ملک میں امن وامان کا مسئلہ بڑھے گا اور سسٹم ڈی ریل ہونے کا خطرہ ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی آرز کا اندراج عدالت کی اجازت سے مشروط کردیااورصوبوںکو مزید کارروائی کرنے سے روک دیا ہے۔ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل،وائس چیئرمین اسلام آباد بارکونسل اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عابد شاہد زبیر ی کو بھی معاونت کے لئے طلب کر لیاہے۔عدالت کی کیس کی مزید سماعت جنوری کے دوسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔