نیویارک (ویب نیوز)

انسانی حقوق کے نگران ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل نے شائع ہونے والے اپنے ایک خط میں ایران سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مظاہرین کو پھانسی دینے کا سلسلہ ختم کرے۔ اس مکتوب میں بتایا گیا ہے کہ 11 افراد کو پہلے ہی موت کی سزا سنائی جا چکی ہے جبکہ مزید 15 پر اسی طرح کے جرائم کا الزام ہے جس کے تحت انہیں پھانسی کی سزا ہو سکتی ہے۔جرمن میڈیا کے مطابق  ملک گیر سطح پر احتجاجی مظاہروں کے دوران گرفتار کیے گئے مظاہرین میں سے اب تک کم از کم دو نوجوانوں کو پھانسی دی جا چکی ہے۔ جمعے کے روز بھی صوبہ سیستان بلوچستان میں سینکڑوں مظاہرین کو سڑکوں پر نکلتے دیکھا گیا اور اس طرح ایران میں جاری مظاہرے اب چوتھے مہینے میں داخل ہو چکے ہیں۔ ایمنسٹی نے ایرانی عدلیہ کے سربراہ غلام حسین محسنی ایجائی کے نام لکھے گئے اپنے مکتوب میں کہا، "ان تمام 26 افراد کو ایسی منصفانہ عدالتی سماعت کا موقع نہیں دیا گیا، جس میں مناسب دفاع کے حقوق، اپنی پسند کے وکلا تک رسائی، بے گناہی ثابت کرنے، خاموش رہنے اور ایک منصفانہ عدالتی کارروائی جیسے دیگر حقوق شامل ہیں۔”چار ماہ قبل ایران میں مظاہرے ایک نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی اخلاقی  پولیس کی حراست میں موت کے بعد شروع ہوئے تھے۔ انہیں مبینہ طور پر لباس سے متعلق ملک کے سخت ضوابط کی پابندی نہ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان مظاہروں کے دوران پولیس کے ساتھ سڑکوں پر ہونے والی جھڑپوں میں اب تک سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ دسیوں ہزار افراد کو گرفتار کر کے سخت سکیورٹی والے جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔جمعرات کے روز ہی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھی ووٹنگ کے ذریعے ایران میں انسانی حقوق کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کرتے اس کی مذمت بھی کی گئی۔ اس میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک اور پرامن مظاہرین کے خلاف پر تشدد رد عمل کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ان مظاہروں کو سن 1979 میں ایرانی انقلاب کے بعد سے اسلامی جمہوریہ ایران میں ملایت پر مشتمل حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دیا جا رہا ہے۔ انقلاب کے بعد ہی ایران میں پہلی بار ملا اقتدار میں آئے تھے۔مہسا امینی کی موت کے بعد پہلے بڑے پیمانے پر خواتین کی قیادت میں مظاہروں کا آغاز ہوا تھا تاہم یہ بے چینی بڑھتی گئی اور اس کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ اس میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے مظاہرین بھی شامل ہیں، جو تہران کے خلاف اپنے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ایرانی نژاد جرمن فلم ساز اور سیاسی کارکن صبا شکیب نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ سکیورٹی فورسز کے سخت رد عمل کے باوجود لوگوں کی جانب سے احتجاج جاری رکھنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا: "اب لوگوں کے پاس کھونے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ملک میں غربت کی شرح 60  سے 70 فیصد تک  ہے۔  وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کھائیں، انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ رہنا کہاں ہے۔ تو پھر انہیں خوف کس بات کا ہوگا؟ مشرق وسطی کے امور کی ماہر جرمنی میں مقیم ایک صحافی گلڈا صاحبی نے بھی احتجاج اور بین الاقوامی رد عمل کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "ہم نے دیکھا ہے کہ جب روس کی بات آتی ہے تو مغرب کیا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ہم نے ایران میں اس طرح کا رد عمل تو نہیں دیکھا۔”وہ کہتی ہیں کہ دنیا کی، "بہت ساری حکومتیں اس بات پر یقین نہیں رکھتیں کہ اس حکومت کا خاتمہ ہو سکے گا۔ اسی لیے وہ حقیقتا ایسا کچھ بھی کرنے میں ہچکچاتی ہیں، جو واضح طور پر انہیں مظاہرین کا حامی ثابت کرے۔”لیکن شکیب کے خیال میں یہ ایرانی حکومت جوں کی توں نہیں رہ سکتی، "لہذا ایک طرح سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب تک یہ حکومت قائم ہے، اس کا انجام بھی قریب ہے، لڑائی تو جاری رہے گی۔