• لولی لنگڑی حکومت سے بہتر ہے کہ حکومت چھوڑ کر الیکشن کروایا جائے، افغان پالیسی ناکام ہوچکی ہے لیگی رہنما
  • سینیٹ میں  سانحہ پولیس لائن پشاورپر بحث کا سلسلہ جاری
  • ارکان کا نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے عملدآمد کمیٹی کے قیام اور افغان پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ
  • ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اصل فیصلے کون کرتا ہے۔ سابقہ وفاقی وزراء پی ٹی آئی

اسلام آباد  (ویب نیوز)

سینیٹ میں منگل کو بھی سانحہ پولیس لائن پشاورپر بحث کا سلسلہ جاری رہا۔ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینیٹر مشاہد حسین  نے کہا ہے کہ لولی لنگڑی حکومت سے بہتر فوری  عام  انتخابات کا انعقاد ہے، ارکان نے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے عملدآمد کمیٹی کے قیام اور افغان پالیسی پر نظر ثانی کا مطالبہ کردیا  جب کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے سابقہ وفاقی وزراء نے کہا ہے ہمیں معلوم نہیں ہے کہ اصل فیصلے کون کرتا ہے  ۔ اجلاس چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی صدارت میں ہوا۔ نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹرطاہر بزنجونے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ مسجد کے اندر حملہ جس کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے۔ اتنے محفوظ علاقے میں حملہ بظاہر سیکورٹی اداروں کی ناکامی لگتی ہے۔ برسوں سے چلنے والی پالیسی ناکام ہو گئی ہے اسے بدلنے کی ضرورت ہے۔پی ٹی آئی کے سینیٹرسیف اللہ ابڑونے کہا کہ دشت گردی کے واقعات کیسے ختم ہوں گے، کے پی کے گورنر کو کیسے معلوم ہوا تھا وہ جواب دے اس بات کا ،گورنر نے کہا لا اینڈ انفورسمنٹ کی صورت حال اچھی نہیں اور اس کے فوری دو دن بعد حملہ ہو گیا۔سینٹر فیصل جاویدنے کہا کہ پاکستان نے امن کیلئے کو قربانیاں دیں وہ دنیا کو باور کروایا جانا چاہیئے ،  جب کہ ہماری ترجیحات فواد چوہدری اور اعظم سواتی کو جیل میں ڈالنا اور عمران خان پر پرچے کرنا ہے ۔ مشرف دور میں دس ڈرون حملے ہوئے ۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی حکومت میں 400 ڈرون حملے ہوئے ۔ عمران خان  کے دور میں ایک بھی ڈرون حملہ نہیں ہوا ،پاکستانی قوم غلام نہیں ہمیں خودی نہیں بیچنی، جب کشکول لیکر پھرتے ہیں تو اس کے بدلے ہمیں استعمال کیا جاتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں آئین کے ساتھ جڑ کر رہنا ہے اسی میں پاکستان کی کامیابی ہے ، آج جمہور کو سننا ہے ہر طبقہ سراپا احتجاج ہے پاکستان انصاف کیلئے پکار رہا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما مشاہد حسین سید نے کہا کہ افغان پالیسی فیل ہو گئی یہ تسلیم کرنا چاہیئے ،ہماری نالائقی ہے کہ کائونٹر ٹیررازم پالیسی نہیں بن سکی،43 سال ہوگئے ہیں ہم حالت جنگ میں ہیں ،5 ارب ڈالر کی افغان جنگ لڑی گئی آج اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں ۔انھوں نے کہا کہ کلیئر افغان پالیسی بننی چاہیئے اور اس کی بنیاد پر کائونٹر ٹیررازم پالیسی بنائی جائے ،لولی لنگڑی حکومت سے بہتر ہے کہ حکومت چھوڑ کر الیکشن کروایا جائے ،جنرل ضیا کو گالیاں تو دی جاتی ہیں مگر ان کی پالیسیوں کو فالو کیا جاتا ہے ،انھوں نے کہا کہ جنرل ضیا نے کہا تھا الیکشن اس وقت ہونگے جب نتائج مثبت ہونگے ،کرسی کی جنگ پاکستان کو تباہ کردے گی ۔ لوگ مسئلہ کا حل چاہتے ہیں روایتی نالائقی نہیں چلے گی۔سینٹر دنیش کمار نے کہا کہ متحد نہ ہوئے تو وہ دن بھی اسکتا ہے جب کوئی خود کش حملہ اور پارلیمنٹ بھی آجائے۔ مشاہد حسین نے الیکشن کروانے کے بارے میں سچ بات کی، ہو سکتا ہے ان کو پارٹی سے نکال دیا جائے ، ہوتا یہی ہے کہ جو سچ بات کرتا ہے اسے پارٹی سے نکال دیا جاتا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنما سینٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ سانحہ پشاور اس ملک میں ہونے والا پہلا واقعہ نہیں ، دہشت گردی کے ناسور کو ختم کرنے کیلئے کچھ نہیں کیا جاسکا ،طالبان میں عمران خان کی گڈ ول کا یہ عالم تھا کہ  احسان اللہ احسان نے ایک پریس کانفرنس میں حکومت سے مذاکرات کیلئے جو چار نام دیئے تھے   ،ان ناموں میں عمران خان بھی شامل تھے ، عمران خان نے اپنی جگہ رستم شاہ مہمند کانام مذاکرات کیلئے  دے دیا تھا ،دہشت گردی کے مسئلہ پر تو تمام لوگ مل بیٹھیں۔سینیٹر رانا مقبول نے کہا کہ جن پر تنقید کی جا رہی ہے انہوں نے ہی ایٹم بم بنا کر ملک کو محفوظ بنایا۔ نواز شریف اس قوم کے محسن ہیں اور انہوں نے ملک کے لیے بہت کچھ کیا، کے پی کے میں سارے آلات کو جدید کرنے کی ضرورت ہے،حکومت کے پاس انٹیلیجنس کے انفراسٹرکچر کو بہتر کر کے لیے سفارشات آچکی ہیں،نیکٹا کو باقاعدہ ایک ڈویژن بنایا جانا ضروری ہے، دہشتگردی کے کیسز کے ٹرائل کو تیز کرنا ہوگا۔انھوں نے کہا کہ سال 2016 کے ایکشن پلان کو بحال کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان کے سرزمین کو محفوظ بنانے کے لیے کوششیں کرنی ہو نگی۔ انھوں نے کہا کہ افعانستان کے ساتھ تعلقات کو تنقید کی نظر سے دیکھنا پڑے گا،اس کے لیے سفارتی سطح پر ایک بھرپور مہم کی ضرورت ہے، ایک تیاری کرنی ہوگی جس کے لیے بہت زیادہ محنت اور مثر اقدامات کرنے ہونگے، ایڈوائزری کمیٹی بنانی ہوگی جو 2016 کے ایس او پیز کے بارے میث حکمت عملی تیار کرے،مجرموں کو سزائیں ملنا اور کمیونٹی کی سپورٹ کی ضرورت ہے، ہر ٹارگٹ کلر کسی کا کسی گھر میں آکر ٹھہرتا ہے،جب تک کمیونٹی نہیں اٹھے کی حکومت کو معاونت نہیں مل سکتی، کمیونٹی کے لوگ مشکوک لوگوں اور سرگرمیوں پر نظر رکھ کر بہتر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ سینیٹراعجاز چوہدری نے کہا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان میں خود کش حملے ہونے لگے ہیں ۔ہمیں امریکہ کوابسلیوٹیلی ناٹ  کی  پالیسی اختیار کرنا ہوگی۔  جب عمران خان نے امریکہ کو ابسلیوٹیلی ناٹ کہا تھا تویہ واقعات کم ہو گئے تھے،جب ہماری مضبوط حکومت گرا دی گئی تو یہ واقعات بڑھ گئے ۔ مزاکرات کے ساتھ گفتگو کا راستہ کھلا رکھنا عمران خان کی  یہی پالیسی تھی ، اس وقت رجیم چینج کا عمل شروع ہو چکا تھا ،ہم آج بھی مذاکرات کے لیے تیار ہے ۔یہ لولی لنگڑی حکومت ہے ۔۔الیکشن کی تاریخ دیں ۔عمران خان الیکشن کی تاریخ اور دہشت گردی کے  معاملے میں مزاکرات کے لیے تیار ہے، آئین کے تحت الیکشن کروائیں ۔انتخابی  تاریخ کیوں نہیں دے رہے ، جب ہمارے ارکان  واپس آنا چاہتے تھے ہمارے استعفے راتوں رات کیوں قبول کیے گئے؟؟ انھوں نے مجھے سینیٹ سے بھی گلہ ہے ۔شارٹ سرکٹ صرف بہانہ تھا  حالات میں بہتری کا واحد حل عام انتخابات کا راستہ ہے۔ پی ٹی آئی کی رہنما سنیٹر ڈاکٹر ثانیہ نشتر نے کہا کہ ہم دہشتگردی کی بنیادی وجوہات پر نہیں جاتے، پالیسیوں پر عمل درآمد نہیں کرتے ۔میں تین سال کابینہ میں رہی مگر اصلی فیصلے کہاں ہوتے ہیں مجھے نہیں معلوم؟ہم نے یکہ طرفہ طور پر فیصلے کیے, پالیسی نہیں بنائی۔آج پاکستان کی تاریخ کا سب سے سیاسی اور معاشی بحران ہے۔سینیٹر سیمی ایزدی نے کہا کہ پشاور واقعہ سے دل لرز گیا،مسجد میں تو نمازی ہیں انکا کیا قصور ہے ان کو کیون مار رہے ہیں  ،دہشتگردی کی لہر شروع ہوگی,زیادہ تر کے پی کے میں ہے۔ انھوں نے کہا کہ  دہشتگردی کی لہر عمران خان کی حکومت میں رک گی تھی ۔وفاق کمزور ہو تو دہشتگردی کے واقعات ہوں گے۔وزیراعظم نے خود اعتراف کیا کہ ہم کمزور ہیں ۔ملک کو کس طرف لیکر جارہے ہیں ،اس ملک میں اج انصاف کسی کو نہیں مل رہا،ارشد شریف کو انصاف نہیں ملا, جو سچ لکھتے ہیں انکو جیل میں ڈال دیتے ہیں

عمران خان پر کس نے گولیاں چلائی ہمیں معلوم ہے۔سینیٹر اسد جونیجونے کہا کہ پاکستان کے دوست ممالک ایران اور افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استمال ہورہی ہے۔افغانستان پالیسی کے رزلٹ ابھی تک نہیں آئے،خود کو مارنا بزدلانہ کاروائیاں نہیں بلکہ کیمپوں میں زہن سازی ہورہی ہے ۔دہشت گرد فوج کی زبان ہی سمجھے گا۔پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے ،موجودہ حکومت منجھے ہوئی ہے ،موجودہ حکومت  سے حالات پر قابو نہیں پایا جارہا تو حالات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں ،پرفارمنس کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے ورنہ عام انتخابات میں مشکل ہوگی۔سنیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے، بنوں اٹیک کی تحقیقات ہوتی تو پشاور واقعہ نہ ہوتا۔امریکہ کی افغانستان سے انخلا پر ہم شادیانے بجا رہے تھے ۔نیشنل ایکشن پلان 2018 کے الیکشن کے بعد دفن ہوگیا۔بلوچستان میں کاروباری شخصیات سے تخریب کاربھتہ لیتے ہیں۔انھوں نے کہا کہ نیکٹا کو مظبوط کریں, پولیس جرائم پر قابو پاسکتی ہے دہشت گردی پر نہیں۔وزیر مملکت شہادت اعوان نے کہا کہ پوری قوم نے متفق ہوکر فیصلہ کیا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف اپنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ، اس قوم میں وہ اہلیت ہے جو دہشت گردوں کے خلاف نمٹ سکتی ہیں ،ہم سب کو ایک پیج پر اکٹھا ہونا گا ،اس وقت سارے لوگ متحد ہوں اور دہشت گردی کا مقابلہ کریں۔ انھوں نے کہا کہ اگر دوہزار بیس میں ٹی ٹی پی کے لوگ رہا نہ کیے جاتے تو شاید یہ حالات نہ ہوتے ۔تمام جماعتوں کو متحد ہوکر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے۔