- سیکورٹی فورسز نے 52 دہشت گرد گرفتار، 40 ہلاک کئے ، پکس کی رپورٹ جاری
اسلام آباد (ویب نیوز)
2023 کا پہلا مہینہ جولائی 2018 کے بعد سب سے مہلک مہینہ بن گیا، جنوری میں عسکریت پسندوں نے 44 حملے کیے جن میں 134 افراد مارے گئے اور کم از کم 254 زخمی ہوئے۔ اسلام آباد میں قائم ایک آزاد تھنک ٹینک پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کانفلیکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (PICSS) کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق نئے سال کے پہلے ماہ میں بھی دہشت گردی کے حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جبکہ سیکورٹی فورسز نے کم از کم 52 عسکریت پسندوں کو گرفتار کر کے بہت سے حملوں کو ناکام بنا دیا، خاص طور پر پنجاب سے، اور کم از کم 40 مشتبہ دہشت گردوں کو ہلاک کیا، اگرچہ جنوری میں دہشت گردی کے واقعات کی تعداد میں قدرے کمی آئی، تاہم ہلاکتوں میں 139 فیصد اضافہ ہوا، جس کی بڑی وجہ پشاور پولیس لائن خودکش دھماکہ تھا۔ جنوری میں، مجموعی طور پر، دو خودکش بم دھماکے ریکارڈ کیے گئے، ایک پشاور اور دوسرا خیبر پختونخواہ کے قبائلی ضلع میں خیبر میں۔ PICSS کے اعداد و شمار کے مطابق جنوری کے دوران خیبرپختونخوا سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ رہا جہاں نہ صرف عسکریت پسندوں کے حملوں کی تعداد 17 سے بڑھ کر 27 ہو گئی بلکہ دسمبر 2022 کے مقابلے میں ہلاکتوں کی تعداد 17 سے بڑھ کر 116 ہو گئی۔ صوبے میں کم از کم 232 افراد زخمی بھی ہوئے۔ پشاور دھماکے میںشہید اور زخمی ہونے والوں میں زیادہ تر سیکیورٹی فورسز کے اہلکار ہیں۔ کے پی پولیس عسکریت پسندوں کا اصل ہدف رہی۔ لکی مروت کے پی کا سب سے زیادہ شورش زدہ ضلع رہا، جہاں جنوری میں عسکریت پسندوں کے زیادہ تر حملے رپورٹ ہوئے، اس کے بعد ڈی آئی خان اور پشاور تھے۔ بنوں، چارسدہ اور صوابی میں بھی عسکریت پسندوں کے حملے ہوئے۔ جنوبی کے پی کو گزشتہ چند مہینوں کے دوران دہشت گردوں کی طرف سے ایک بڑے حملے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔کے پی کے قبائلی اضلاع(سابق فاٹا) میں جنوری کے دوران تشدد میں کمی واقع ہوئی۔ سابقہ فاٹا کے علاقے سے صرف تین عسکریت پسندوں کے حملوں کی اطلاع ملی ۔ دسمبر 2022 میں، PICSS نے اس خطے میں 11 عسکریت پسندوں کے حملے ریکارڈ کیے تھے۔ سابقہ فاٹا میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز (IBOs) کو تیز کیا گیا ہے، جو اس علاقے میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں کمی کی بنیادی وجہ تھی۔ سابقہ فاٹا میں، جنوری کے دوران شمالی وزیرستان اور خیبر کے علاوہ کسی دوسرے ضلع سے جنگجووں کی پر تشدد سرگرمیوں کی روپورٹ موصول نہیں ہوئی۔جنوری 2023 میں، بلوچستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں کمی آئی، جہاں دسمبر 2022 میں 17 کے مقابلے میں جنوری میں صرف 9 حملے رپورٹ ہوئے۔ اس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی 14 سے کم ہو کر 7، اور زخمیوں کی تعداد 48 سے کم ہو کر 20 رہ گئی۔ بولان، پنجگور، قلات، خضدار، مستونگ اور کوئٹہ اس ماہ کے دوران متاثرہ اضلاع تھے۔پنجاب سے دہشت گردی کی چار وارداتوں کی اطلاع ملی ہے جس میں سیکیورٹی فورسز کے تین اہلکار شہید ہوئے ہیں، جب کہ سندھ سے دو معمولی نوعیت کے حملے رپورٹ ہوئے ہیں جن میں ایک شخص مارا ہوا۔ 31 جنوری کو تقریبا دو درجن ٹی ٹی پی کے عسکریت پسندوں کی طرف سے میانوالی ضلع کے مکروال تھانے پر حملہ پنجاب میں ہونے والا سب سے ہائی پروفائل حملہ تھا۔ حملہ پسپا کر دیا گیا لیکن اس نے کے پی اور پنجاب کی سرحد پر مسلح دہشت گردوں کی نقل حرکت اور ان کی تعداد میں واضح اضافے کو ظاہر کیا۔ راولپنڈی، ڈی جی خان اور خانیوال سے ایک ایک حملے کی اطلاع ملی۔