نیب ترامیم کیس کے ذریعے قانون پر ریڈلائن مقرر کی جائے گی، چیف جسٹس

عدالت کا کام نہیں وہ پارلیمنٹ کے پیدا کردہ تنازعات حل کرے  ،دوران سماعت ریمارکس

کیس کی مزید سماعت 8 فروری تک ملتوی

اسلام آباد (ویب نیوز)

سپریم کورٹ میں قومی احتساب بیورو (نیب) قوانین میں ترمیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ ترامیم کیس کے ذریعے نیب قانون پر ریڈلائن مقرر کی جائے گی۔سپریم کورٹ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف سابق وزیر اعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پر سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الہی کا خیر مقدم کیا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ نئے اٹارنی جنرل کے آنے سے حکومت کی ٹیم اور بھی مضبوط ہو گئی ہے، نئے اٹارنی جنرل کی تقرری خوش آئند ہے۔دوران سماعت سپریم کورٹ نے ایک بار پھر نیب ترامیم سے ختم ہونے یا متعلقہ فورم پر منتقل ہونے والے کیسز کی تفصیلات کیں، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ نیب ترامیم سے کتنے کیسز کا فیصلہ ہوا اور کتنے واپس ہوئے تفصیلات جمع کرائیں، اس تاثر میں کتنی سچائی ہے کہ نیب ترامیم سے کوئی کیسز ختم یا غیر موثر ہوئے؟اسپیشل نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نیب ترامیم سے کوئی نیب کیس ختم نہیں ہوا، نیب نے کسی کیس میں پراسیکیوشن ختم نہیں کی،کچھ نیب کیسز ترامیم کے بعد صرف متعلقہ فورمز پر منتقل ہوئے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم کے بعد جن کیسز کا میرٹ پر فیصلہ ہوا ان کی بھی تفصیل جمع کرائیں، چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ بھی بتائیں کہ نیب ترامیم سے کن کن نیب کیسز کو فائدہ پہنچا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ 50 کروڑ روپے سے کم کی کرپشن کے کیسز خود بخود نیب ترامیم سے غیر موثر ہو گئے، نیب نے 500 ملین روپے سے کم کرپشن کے مقدمے ٹرانسفر کر دیے ہیں۔وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت کے علم میں یہ بھی ہونا چاہیے کہ نیب نے پلی بارگین سے اکھٹے ہونے والے پیسے کا کیا کیا؟ پبلک اکاونٹس کمیٹی نے پلی بارگین کی رقم کا حساب چئیرمین نیب سے مانگا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ چئیرمین نیب نے پبلک اکاونٹس کمیٹی کو پلی بارگین کی رقم سے متعلق کوئی جواب نہیں دیا، اس موقع پر عدالت عظمی نے نیب کو پلی بارگین کی رقم سے متعلق تفصیل بھی رپورٹ میں شامل کرنے کا حکم دیا۔مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت درخواست گزار سے یہ بھی پوچھے کہ ان کے دور میں کتنے نیب کیسز ختم ہوئے جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ یہ عدالت کا کام نہیں ہے کہ وہ پارلیمنٹ کے پیدا کردہ تنازعات حل کرے، پارلیمنٹ اپنے تنازعات خود حل کرے۔جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پاکستان بننے سے اب تک انسداد کرپشن کا قانون موجود رہا ہے، عمران خان کو شاید نیب ترامیم سے اصل قانون کے تقاضے بدل جانے پر تشویش ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا عدالت خود سے بنیادی حقوق کی تشریح کر سکتی ہے؟ جس پر وکیل مخدوم علی خان نے جواب دیا کہ عدالت تب ہی مداخلت کر سکتی ہے جب حکومت کی کوئی شاخ اپنی حدود سے تجاوز کرے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے نیب ترامیم سے متعلق معاملہ پارلیمنٹ پر عوامی اعتماد کا ہے، اگر عدالت پر یہ ثابت ہوا کہ عوامی اعتماد ٹوٹا ہے تو کسی بھی زاویے سے نیب ترامیم پر فیصلہ کریں گے۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر عدالت کسی قانونی خلاف ورزی پر مداخلت نہیں کرتی تو یہ عوام کے ساتھ انتہائی ناانصافی ہو گی، اس کیس کے ذریعے نیب قانون پر ریڈلائن مقرر کی جائے گی۔فریقین کے دلائل سننے کے بعد عدالت عظمی نے کیس کی مزید سماعت 8 فروری دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کردی۔