بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے خلاف درخواست مسترد کر دی
سپریم کورٹ کے فیصلے سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہندو وزیر اعلی لانے کے بی جے پی کے منصوبے کی راہ ہموار
نئی اسمبلی میں جموں کو چھے اور وادی کشمیر کو ایک اسمبلی نشست اضافی ملے گی، پنڈتوں کو بھی ایک نشست ملے گی
نئی دہلی ( ویب نیوز )
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں وکشمیر میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے خلاف درخواست مسترد کر دی ہے ۔ بھارتی حکومت کے حلقہ بندی کمیشن نے جموں میں اسمبلی نشستوں میں چھے کا اضافہ کر کے جموں وکشمیر میں ہندو وزیر اعلی لانے کے بی جے پی کے منصوبے کو عملی جامہ پہنایا تھا۔سری نگر کے دو شہریوں حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو کی طرف سے دائر درخواست میں جموں وکشمیر اسمبلی اور پارلیمانی حلقوں کی حد بندی کو چیلنج کیا گیا تھا۔بھارتی سپریم کورٹ نے پیر کے روز دائر درخواست کا فیصلہ جاری کر دیا۔جسٹس ایس کے کول اور جسٹس اے ایس اوکا پر مشتمل بنچ نے یہ درخواست مسترد کر دی ہے۔سپریم کورٹ نے گزشتہ سال یکم دسمبر کو حد بندی کمیشن کی تشکیل کے حکومت کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضی پر اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ یاد رہے جموں کشمیر کے انتخابی نقشے میں میں ردوبدل سے وادی کشمیر کی موجودہ 46 سیٹوں میں صرف ایک سیٹ کا اضافہ ہوا ہے جبکہ جموں کی موجودہ 37 نشتوں میں چھ کا اضافہ کر کے یہ تعداد 43 تک پہنچ گئی ہے۔پانچ اگست 2019 کو بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت تبدل کرنے سے قبل جموں کشمیر اور لداخ ایک ریاست تھی، جس کی قانون ساز اسمبلی میں کل 87 نشستیں تھیں۔ اس میں کشمیر سے 46، جموں سے 37 جبکہ لداخ سے چار منتخب نمائندے ہوتے تھے۔ لیکن خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد لداخ کو علیحدہ مرکزی انتظام والا علاقہ قرار دیا گیا اور جموں کشمیر اسمبلی میں نمائندوں کی تعداد 83 رہ گئی۔ بھارتی وزارت داخلہ برائے قانون و انصاف نے6 مارچ 2020 کو مقبوضہ جموں وکشمیر میں نئی انتخابی حلقہ بندی کے لیے سپریم کورٹ کی سابق جج رنجنا پرکاش ڈیسائی کی سربراہی میں ایک حد بندی کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔ حدی بندی کی مشق 5 مئی 2022 کو مکمل ہوئی تھی۔ دو مرتبہ اس کی مدت میں توسیع کے بعد کمیشن نے مئی 2022 کو اپنی حتمی رپورٹ پیش کی جس میں جموں کے لیے چھ اور کشمیر کے لیے فقط ایک نشست کا اضافہ کیا گیا۔ساتھ ہی درجہ فہرست ذاتوں اور قبائل کے لیے 16 نشستیں مخصوص رکھی گئی ہیں۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ درجہ فہرست ذاتوں اور قبائل سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہندو اکثریتی جموں خطے میں آباد ہے۔کمیشن نے رپورٹ میں یہ بھی سفارش کی ہے کہ وادی چھوڑ چکے کشمیری پنڈتوں اور پاکستانی ہندو مہاجرین کے لیے بھی اسمبلی میں نمائندگی کے امکانات تلاش کیے جائیں۔نئی حلقہ بندی میں قانون ساز اسمبلی کے بعض حلقوں کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔ جموں اور کشمیر میں فی الوقت پانچ پارلیمانی حلقے ہیں جن میں سے تین کشمیر جبکہ دو جموں میں ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی ہے تاہم ان کے ساتھ جڑے اسمبلی حلقوں میں جوڑ توڑ کیا گیا ہے۔کشمیر کے اننت ناگ اور جموں کے راجوری اضلاع کو جوڑ کر ایک پارلیمانی حلقہ اننت ناگ راجوری تشکیل دیا گیا ہے۔2011 میں ہوئی مردم شماری کے مطابق لداخ سمیت جموں کشمیر کی آبادی 1 کروڑ 25 لاکھ ریکارڈ کی گئی ہے۔ لداخ کے علیحدہ ہونے کے بعد جموں کشمیر کی آبادی 1 کروڑ 23 لاکھ کے آس پاس رہ گئی ہے۔کشمیر کے 10 اضلاع میں آبادی کا تناسب 56.2 فیصد ہے جبکہ جموں کے 10 اضلاع میں یہ تناسب 43.8 فیصد ہے۔ مگر نئی حلقہ بندی کے بعد کشمیر میں اسمبلی نشتوں کا تناسب گھٹ کر 52.2 فیصد رہ جائے گا جبکہ جموں میں سیٹوں کا تناسب بڑھ کر 47.8 فیصد ہو جائے گا۔ جموں کے پونچھ، راجوری، رام بن، ڈوڈہ، کشتواڑ اور بھدرواہ اضلاع میں پچاس فیصد یا اس سے زیادہ مسلم آبادی کے باوجود مسلمانوں کو قانون ساز اسمبلی میں مناسب نمائندگی نہیں ملے گی۔انتخابی نقشے میں جس انداز سے ردو بدل کیا گیا ہے وہ کشمیر اور جموں کی مسلم آبادی کو اسمبلی میں کمزور کرسکتا ہے۔ تاہم جموں، جہاں کی سیاست پر بی جے پی غالب ہے، کے اکثر حلقے نئی حلقہ بندیوں کو تاریخ ساز بتا رہے ہیں۔ گزشتہ سال حد بندی کمیشن کی سربرا ہ سپریم کورٹ کی ریٹائرڈ جج جسٹس رنجنا پرکاش دیسائی کی سربراہی میں حدبندی ایکٹ2002اورجموں وکشمیر تنظیم نوایکٹ2019 کے تحت 17صفحات پرمشتمل ڈرافٹ رپورٹ کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی شائع کر دیا گیا تھا۔ قابل ذکر ہے کہ بھارتی سپریم کورٹ حدبندی پر2026 تک پابندی عائد کر رکھی ہے۔