•   دو ہفتوں کے اندر خصوصی جے آئی ٹی سے پیش رفت رپورٹ طلب ، ارشد شریف قتل پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی

اسلام آباد (ویب نیوز)

ارشد شریف قتل کیس کی جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کے سامنے بیان دیا ہے کہ کینیا نے ہم سے تعاون نہیں کیا، قتل کیس میں ہمیں کوئی ٹھوس ثبوت نہیں مل سکا جس پر عدالت برہم ہوگئی۔سپریم کورٹ میں ارشد شریف قتل کیس کے ازخود نوٹس کی سماعت ہوئی جس میں جے آئی ٹی کے سربراہ اویس احمد نے دوسری پیش رفت رپورٹ جمع کروا دی۔  سپریم کورٹ کی جانب سے سربراہ جے آئی ٹی کی سرزنش کی گئی۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ جو کام آپ کے ذمہ لگایا تھا وہ ہوا یا نہیں؟ کینیا سے قتل کے متعلق کوئی مواد ملا ہے یا نہیں؟ سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ کینیا میں حکام سے ملاقاتیں کیں۔جسٹس مظاہر نے کہا کہ کہانیاں نہ سنائیں، آپ کو شاید بات سمجھ نہیں آرہی اس پر سربراہ جے آئی ٹی نے کہا کہ کینیا نے شواہد تک رسائی نہیں دی۔ جسٹس مظاہر نے کہا کہ شواہد کی بات تو ٹرائل میں سامنے آئے گی مواد کیا جمع کیا؟ اس پر سربراہ نے انکشاف کیا کہ ارشد شریف قتل کے حوالے سے کینیا سے کوئی ٹھوس مواد نہیں ملا۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارشد شریف کا موبائل فون اور دیگر سامان کہاں ہے؟ سربراہ جے آئی ٹی اویس احمد نے جواب دیا کہ ارشد شریف کا موبائل اور آئی پیڈ کینیا کے آئی ٹی ڈپارٹمنٹ کے پاس ہے، ارشد شریف کا باقی سامان موصول ہوچکا ہے۔جسٹس مظاہر نقوی نے پوچھا کہ جے آئی ٹی کے ارکان کہاں ہیں؟ جس پر اویس احمد نے کہا کہ تین ارکان عدالت میں موجود ہیں، اس پر جسٹس مظاہر بولے کہ باقی ارکان کیوں نہیں آئے؟ کیا تفتیشی ٹیم کا کام نہیں پیش ہونا؟دوران سماعت سپریم کورٹ نے ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے والوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دے دیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کس نے پبلک کی؟ پتا کریں کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پبلک کرنے کے پیچھے کون ملوث تھا؟ چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بغیر تصدیق پبلک کردی گئی، کسی نے ارشد شریف قتل کیس کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ جان بوجھ کر پبلک کی ہے، پاکستان میں تحقیقات میں غلطیاں ہوئی ہیں۔دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا نے ارشد شریف قتل کی تحقیقات میں تعاون نہیں کیا، اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اگر کسی ملک سے تعلقات بہت اچھے نہ ہوں تو تحقیقات کے لیے تعاون کیسے حاصل کیا جاتا ہے؟چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ کینیا آزاد ملک اور ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہے، جو بھی حالات ہوں دوسرے ملک کے بارے میں احترام سے بات کیجیے، عدالت جاننا چاہتی ہے کہ اسپیشل جے آئی ٹی کو اب تک کیا ملا ہے؟ اسپیشل جے آئی ٹی آئندہ کیا لائحہ عمل اختیار کرے گی؟ بتایا جائے، ارشد شریف قتل کا قبل ازقت کسی پر الزام عائد نہیں کرسکتے۔چیف جسٹس نے کہا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ آنے سے اب تک کچھ ایسا ہوا ہے کہ کینیا اب تعاون نہیں کر رہا، سپریم کورٹ ارشد شریف قتل کی تحقیقات کی سربراہی نہیں کر رہی۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دفتر خارجہ کو کینین وزیر خارجہ نے تعاون کی یقین دہانی کرائی، یقین دہانی کے باوجود کینیا میں قتل کی جائے وقوع پر اسپیشل جے آئی ٹی کو کیوں جانے نہیں دیا گیا؟ جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی بولے کہ بار بار ایک ہی کہانی سنائی جا رہی ہے۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ کینیا سے سفارتی تعلقات بھی قائم رکھنے ہیں یہ بیچیدہ معاملہ ہے،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ارشد شریف قتل کے تین زاویے ہیں، ارشد شریف کو پاکستان سے بھاگنے پر کس نے مجبور کیا؟ کیا تحقیقات ہوئیں کہ ارشد شریف کے خلاف ملک بھر میں مقدمات کس نے درج کرائے؟ کیا پتا لگایا گیا کہ ارشد شریف کو ایسا کیا دیکھایا گیا کہ وہ ملک سے باہر چلے گئے؟ جب تمام کڑیاں جڑیں گی تو خود ہی پتا چل جائے گا کہ ارشد شریف سے جان کون چھڑوانا چاہتا تھا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایک ماہ کا وقت دیتے ہیں ارشد شریف قتل کیس میں کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں مکمل رپورٹ دیں، کینیا میں وکیل کریں اپنے قانونی حقوق کی معلومات لیں، جو کرنا ہے کریں لیکن حقائق تک پہنچیں۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارشد شریف قتل کیس کے اہم کردار خرم اور وقار کے ریڈ وارنٹ کے لیے انٹرپول کو لکھ دیا، فی الحال اقوام  متحدہ کی مدد لینے کا وقت نہیں آیا۔ایڈیشنل سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ وزیر مملکت برائے خارجہ کی کینیا کے وزیر خارجہ سے بات ہوئی ہے، کینیا کے حکام نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے، مناسب ہوگا پہلے دوطرفہ معاملہ حل ہونے دیا جائے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جے آئی ٹی کو خود دیکھنا ہوگا کہ آگے کیسے چلنا ہے، ارشد شریف کے اخراجات کون اور کیوں برداشت کر رہا تھا؟ کس کے کہنے پر اخراجات اٹھائے جا رہے تھے سامنے کیوں نہیں آیا؟ کئی ممالک کے شہریوں کا کیس ضلعی عدلیہ میں ہو تو ہمیں خط لکھتے ہیں، پاکستانی سفارت خانہ بھی نیروبی میں وکلا اور صحافیوں سے مدد لے، ارشد شریف بین الاقوامی شہرت یافتہ صحافی تھے، کینیا نے کیا تحقیقات کی ہیں رپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ کینیا کی پولیس جس کہانی پر تحقیقات کر رہی ہے وہ قابل قبول نہیں، ارشد شریف قتل پر جے آئی ٹی بنانے کی یہی وجہ تھی۔ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارشد شریف پر مقدمات درج کرانے والوں سے بھی تفتیش کر رہے ہیں،  بعض سرکاری افسران کے نام آئے ان سے بھی تفتیش کی، ارشد شریف پر مقدمات درج کرانے کے پیچھے کون تھا ابھی کچھ نہیں کہ سکتے۔جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ عدالت کے ساتھ کھیل نہ کھیلیں، پہلا مرحلہ تو یہی تھا جو مکمل نہیں ہوسکا، کیا جے آئی ٹی کینیا اور یو اے ای میں تفریح کرنے گئی تھی؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ ارشد شریف کے ٹویٹس اور پروگرامز کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال اٹھایا کہ ارشد شریف کے ساتھ موجود خرم اور وقار کا بیان کیوں نہیں لیا؟ اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کینیا کے حکام نے صرف ڈائریکٹر پبلک پراسیکیوٹر سے ملاقات کرائی، کینیا کے حکام نے تعاون کی یقین دہانی کرائی لیکن جائے وقوع کا دورہ نہیں کرنے دیا گیا، کینیا پر سفارتی ذرائع سے دبا وڈال رہے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقوام متحدہ سے کیوں مدد نہیں لی جا رہی؟  اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ کینیا دوست ملک اور ہر عالمی فورم پر پاکستان کی حمایت کرتا ہے، ایسا قدم نہیں اٹھانا چاہتے کہ دوطرفہ اور عالمی تعاون کھو دیں، اس پر جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا پاکستان کا کینیا کے ساتھ باہمی قانونی تعاون کا سلسلہ فعال ہے یا نہیں؟جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سی این این کی صحافی اسرائیلی فورسز کی فائرنگ سے جاں بحق ہوئی، اسرائیل پر اتنا بین الاقوامی دبا ڈالا گیا کہ تحقیقات آگے بڑھانا پڑھیں، اگر اسپیشل جے آئی ٹی کو کوئی صحافی معلومات دے تو اس کے تحفظ کو بھی یقینی بنائیں۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اسپیشل جے آئی ٹی کا کینیا کا دورہ بے سود رہا، اسپیشل جے آئی ٹی جانے سے پہلے مکمل طور پر تیار نہیں تھی، کینیا پر الزام عائد کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکیں۔سماعت میں مرحوم ارشد شریف کی بیوہ نے عدالت سے کہا کہ اسپیشل جے آئی ٹی کی رپورٹ کی مصدقہ کاپی فراہم کی جائے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ آپ کو نہیں دے سکتے، جے آئی ٹی رپورٹ کے پبلک ہونے سے خدشات پیدا ہوتے ہیں، پہلے ہی کینیا میں موجود دو بھائیوں سمیت تمام لوگ چھپ گئے ہیں۔بعدازاں سپریم کورٹ نے دو ہفتوں کے اندر خصوصی جے آئی ٹی سے پیش رفت رپورٹ طلب کرتے ہوئے ارشد شریف قتل پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ایک ماہ تک ملتوی کردی۔