لاہور ہائیکورٹ: عمران خان کی عدالت سے معذرت، 3 مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور

عمران خان کیخلاف پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس سے دہشتگردی کی دفعات خارج

لاہور (ویب  نیوز)

لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصافعمران خان کی ایک درخواست پر حفاظتی ضمانت منظور کردی جبکہ جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں عمران خان نے معذرت کی اور حفاظتی ضمانت کی درخواست واپس لینے پر درخواست نمٹا دی گئی۔لاہور ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان شام 5 بجے تک دی گئی آخری مہلت پر عدالت میں نہیں پہنچ سکے ،جہاں ان کے ساتھ پارٹی رہنماوں کے علاوہ کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔سابق وزیراعظم عمران خان جب کمرہ عدالت میں پہنچے تواسلام آباد کے تھانہ سنگ جانی میں ان کے خلاف درج مقدمے میں حفاظتی ضمانت کی درخواست پر جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں سید شہباز علی رضوی پر مشتمل دو رکنی بینچ نے سماعت کی۔عمران خان کے وکیل نے عدالت سے عمران خان کی دو ہفتوں کی حفاظتی ضمانت کی استدعا کی جبکہ عدالت نے عمران خان کو روسٹرم پر بلا لیا۔عدالت کو سابق وزیراعظم عمران خان نے بتایا کہ میرے ایکسرے ہوئے ہیں، میری ٹانگ کافی حد تک ٹھیک ہوچکی ہے لیکن ڈاکٹروں نے دو ہفتوں کا کہا ہے اور 28 فروری کو میرا چیک اپ ہوگا۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ عام طور ہر 10 دن تک کی اجازت دی جاتی ہے۔عمران خان نے عدالت کو مزید بتایا کہ میری پارٹی کا نام ہی انصاف کے نام پر ہے، میں ایک گھنٹے تک گاڑی میں بیٹھا رہا اور عدالت پیش ہونے کیلیے انتطار کرتا رہا، میں عدالتوں کا مکمل احترام کرتا ہوں۔عدالت نے عمران خان کی ایک ہفتے (3 مارچ) تک کیلیے حفاظتی ضمانت منظور کرلی اور عمران خان کو 3 مارچ تک متعلقہ عدالت سے رجوع کرنے کی ہدایت کردی۔اس سے قبل پی ٹی آئی چیئرمین لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں گاڑی میں موجود تھے اور اسی دوران حفاظتی ضمانت کی درخواست کی سماعت شروع ہوئی تھی۔جسٹس علی بابر نجفی نے پوچھا کہ درخواست گزار اس وقت کہاں ہے تو عمران خان کے وکیل نے کہا کہ وہ احاطہ عدالت میں موجود ہیں تو جسٹس علی باقر نجفی نے کہا ان کو عدالت میں آنا ہوگا، عدالت میں درخواست گزار کو پیش ہونے سے کس نے روکا ہے۔جسٹس علی باقر نجفی کے استفسار پر عمران خان کے وکیل نے کہا کہ کسی نے روکا نہیں مگر سیکیورٹی اہلکار تعاون نہیں کر رہے ہیں، جس پر عدالت نے ایس پی سیکیورٹی کو فوری طور پر عمران خان کو پیش کرنے کا حکم دے دیا۔عمران خان کے وکیل نے کہا کہ مجھ سے آئی جی نے وعدہ کیا کہ عمران خان کو 10 منٹ میں ہائی کورٹ پہنچا دیں گے، لیکن افسوس سے کہنا چاہتا ہوں عمل نہیں ہوا، عدالتی تقدس کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا۔اس موقع پر عدالت نے عمران خان کو پیش نہ کرنے ہر سیکیورٹی افسر پر اظہار برہمی کیا اور پوچھا کہ بتائیں کہاں ہیں درخواست گزار، جس پر سیکیورٹی انچارج نے کہا کہ کنٹرول روم سے چیک کیا ہے عمران خان گاڑی میں موجود ہیں۔سیکیورٹی انچارج نے کہا کہ ایس پی سیکیورٹی لینے گئے ہوئے ہیں لیکن جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ آپ خود جائیں اور لے کر آئیں۔عمران خان کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت کو بتایا کہ عمران خان عدالتی احکامات پر احاطہ عدالت میں موجود ہیں لیکن انہیں ایسی صورت حال میں عدالت پیش نہیں کر سکتے، اس وقت پارٹی کے سئینر ترین رہنما کمرہ عدالت میں موجود ہیں اور کوئی اعلان نہیں کیا گیا کہ عمران خان ہائی کورٹ میں پیش ہو رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ لوگوں کا پیار کہہ لیں یا جنون کی اتنی تعداد میں پہنچ گئے ہیں، عمران خان اگر ایسی صورت حال میں نکلتے ہیں تو ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ سکتی ہے۔وکیل نے کہا کہ اس وقت الیکشن سر پر ہیں، صدر نے اعلان کر دیا ہے، جس پر عدالت نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہوگیا ہے، تو عمران خان کے وکیل نے جواب دیا کہ جی صدر پاکستان نے 9 اپریل کے لیے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کو اگر پولیس سیکیورٹی میں لاسکتی ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ عمران خان کو کمرہ عدالت تک پہنچانا کوئی مشکل کام نہیں ہے اور اس دورا ایس پی سیکیورٹی عدالت میں پیش ہوئے تو جسٹس علی باقر نجفی نے استفسار کیا کہ بتائیں درخواست گزار کہاں ہیں۔ایس پی سیکیورٹی نیعدالت کو بتایا کہ عمران خان اس وقت جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت کے باہر موجود ہیں، جس پر جج نے پوچھا کہ کیا وہ آنا نہیں چاہتے ہیں تو ایس پی سیکیورٹی نے جواب دیا کہ وکلا انہیں آنے نہیں دے رہے ہیں۔جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ درخواست گزار کو پہلے عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا پڑے گا، جس پر عمران خان کے وکلا نے ان کو پیش کرنے کی یقین دہانی کروا دی۔عدالت نے عمران خان کے وکلا کی استدعا منظور کرتے ہوئے سماعت میں ساڑھے 7 بجے تک وقفہ کرلیا۔جس کے بعد پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور سیکریٹری جنرل اسد عمر، شبلی فراز اور ایڈووکیٹ اظہر صدیق کمرہ عدالت سے روانہ ہوئے تاکہ عمران خان کو عدالتی حکم سے آگاہ کیا جائے گا۔اس موقع پر عمران خان کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ کارکنوں کو ہدایت کی جائے گی کہ راستا بنایا جائے تاکہ پیشی ممکن بنائی جاسکے۔جسٹس علی باقر نجفی کی عدالت سے حفاظتی ضمانت ملنے کے بعد سابق وزیراعظم عمران خان جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں پہنچے جہاں کمرہ عدالت میں رش کی وجہ جسٹس طارق سلیم شیخ واپس چیمر میں چلے گئے اور کہا کہ کمرہ عدالت خالی کیے بغیر کیس کیسے سنوں گا۔جسٹس طارق سلیم شیخ کی عدالت میں عمران خان کی حفاظتی ضمانت پر سماعت شروع ہوئی تو عمران خان روسٹرم پر آ گئے۔عدالت نے عمران خان سے پوچھاکہ خان صاحب آپ کی درخواست پر دستخط تھے کیا وہ آپ کے تھے، جس پر عمران خان نے کہا کہ درخواست میری مرضی کے بغیر دائر ہوئی تھی۔عمران خان نے کہا کہ مجھے جیسے ہی پتا چلا میں نے اظہر صدیق کو درخواست واپس لینے کا کہا اور اس موقع پر عمران خان نے کمرہ عدالت میں معذرت کر لی۔لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کی جانب سے حفاظتی ضمانت واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ نے 16 فروری کو الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج اور کار سرکار میں مداخلت کے کیس میں حفاظتی ضمانت کی درخواست پر حلف نامے اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق کی وضاحت کے لیے عمران خان کو آج پیش ہونے کا حکم دیا تھا۔گزشتہ سماعت پر لاہور ہائی کورٹ نے پیر کی دوپہر 2 جے تک عمران خان کو پیش ہونے کی مہلت دی تھی، جسٹس طارق سلیم شیخ عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست سے متعلق کیس کی سماعت کر رہے ہیں۔  پیر کوسماعت کے آغاز پر عمران خان لاہور ہائی کورٹ کی مہلت کے باوجود مقررہ وقت تک عدالت میں پیش نہیں ہوئے، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ 2 بجے کے لیے کیس مقرر تھا۔وکیل انتظار پنجوتہ نے کہا کہ عمران خان کے وکیل خواجہ طارق رحیم راستے میں ہیں آرہے ہیں، شاید رش میں پھنس گئے ہیں، کچھ دیر میں وکیل پہنچ جائیں گے جس پر عدالت نے سماعت میں وقفہ کر دیا۔وقفے کے بعد سماعت کے آغاز پر خواجہ طارق رحیم نے مقف اپنایا کہ عدالتی حکم کے مطابق آئی جی کے پاس گئے، ہمیں کہا گیا کہ مال روڈ پیشی کے موقع پر ٹریفک فری ہوگا، ہائی کورٹ کی اندر کی سیکیورٹی کے لیے ہمیں رجسٹرار سے رابطہ کرنے کا کہا گیا، رجسٹرار آفس نے مسجد گیٹ سے انٹری کی درخواست کو مسترد کر دیا۔عمران خان میڈیا میں خود کہہ چکے ہیں کہ وہ ہائی کورٹ جائیں گے لیکن حالات ایسے ہیں کہ سیکیورٹی کے مسائلِ ہیں، مال روڈ ٹریفک فری ملے تو ہم عمران خان کو کل پیش کر دیتے ہیں۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ قانون کے سامنے سب برابر ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ جہاں سے عام آدمی آتا ہے وہیں سے سب آئیں۔انہوں نے کہا کہ آپ درخواست پر دلائل شروع کریں، وکیل عمران خان نے کہا کہ عمران خان کی حفاظتی ضمانت کی درخواست واپس لینا چاہتے ہیں۔اس موقع پر عدالت نے وکیل کو حکم دیا کہ دستخطوں میں فرق سے متعلق وضاحت دیں، وکیل عمران خان نے کہا کہ درخواست پر لگے حلف نامے اور وکالت نامے پر دستخط میں فرق ہے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ اگر عمران خان نے درخواست ہی فائل نہیں کی تو واپس کیسے لے سکتے ہیں، کبھی بھی حفاظتی ضمانت ایسے نہیں چلتی ہر دو گھنٹے بعد وقت لے لیتے ہیں۔وکیل عمران خان نے کہا کہ آپ حفاظتی ضمانت کی درخواست مسترد کر دیں، درخواست مسترد کر دیتا ہوں لیکن دستخطوں والا معاملہ ختم نہیں ہوگا، ہم توہین عدالت کا شوکاز نوٹس جاری کریں گے۔وکیل عمران خان نے کہا کہ درخواست اور بیان حلفی پر دستخط کے فرق کی نشاندہی کی، وکیل خواجہ طارق رحیم نے بیان دیا کہ عمران خان نے یہ حفاظتی ضمانت فائل نہیں کی جس پر عدالت نے وکیل سے سوال کیا کہ یہ درخواست کس نے فائل کی جس پر خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ یہ بات تو اظہر صدیق بہتر بتائیں گے۔اس دوران عمران خان کے وکیل نے عدالتی حکم پر توہین عدالت کا قانون پڑھ کر سنایا، وکیل نے کہا کہ میں عدالت کے سامنے مان رہا ہوں کہ دستخط عمران خان کے نہیں ہیں، عمران خان یہ بات لکھ کر دے دیتے ہیں۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہم عمران خان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر دیتے ہیں وہ ٹھیک ہو کر تین ہفتے میں جواب جمع کرا دیں جس پر وکیل عمران خان نے کہا کہ توہین عدالت بنتی ہی نہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ قانون کا مذاق بنا رہے ہیں، جیسے میں نے آپ کو اکوموڈیٹ کیا ہے ایسا نہیں ہوتا۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ عمران خان لیڈر ہیں، رول ماڈل ہیں، انہیں رول ماڈل ہی رہنا چاہیے۔وکیل عمران خان نے کہا کہ عدالت 5 بجے تک مہلت فراہم کردے، عمران خان پیش ہو جائیں گے جس پر لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کو  شام 5 بجے تک پیش ہونے کی آخری مہلت دیتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا۔گزشتہ سماعت پر عدالت عالیہ نے آئی جی پنجاب کو عمران خان کی لیگل ٹیم کے ساتھ مل کر سیکیورٹی کے معاملات طے کرنے کی ہدایت کی تھی، عدالت نے دستخطوں میں فرق سے متعلق بھی عمران خان سے وضاحت طلب کر رکھی ہے جب کہ عمران خان نے الیکشن کمیشن حملہ کیس میں حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔دوسری جانب عمران خان کی لاہور ہائی کورٹ میں پیشی کے تناظر میں پولیس کی اضافی نفری لاہور ہائی کورٹ میں پہنچ گئی تھی، ہائیکورٹ کے مرکزی گیٹ پر بھی پولیس تعینات کی گئی جب کہ خواتین پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد کو بھی ہائیکورٹ میں تعینات کیا گیا ہے۔قبل ازیں عمران خان کی ذاتی سیکیورٹی ٹیم نے ہائی کورٹ کا دورہ کیا، سیکیورٹی ٹیم نے ہائی کورٹ کے مرکزی گیٹس پر سیکیورٹی چیک کی، سیکیورٹی ٹیم نے ہائی کورٹ کے اندر بھی سیکیورٹی کا جائزہ لیا۔عمران خان کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ عمران خان کی گاڑی کو ہائیکورٹ کے احاطے میں داخلے کی اجازت نہیں ملی، شبلی فراز نے گاڑی کو احاطہ عدالت میں لانے کے لیے انتظامی سطح پر ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا، عمران خان کی ہائیکورٹ میں پیشی بارے لیگل ٹیم عمران خان سے دوبارہ مشاورت کرے گی۔سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف کے چیف آف اسٹاف سینیٹر شبلی فراز نے یقین ظاہر کیا ہے کہ حفاظتی ضمانت کی درخواست سے متعلق کیس پر آج سماعت کے دوران عمران خان کی گاڑی اندر ایک خاص جگہ تک لے جانے کی اجازت مل جائے گی اور عمران خان عدالت میں پیش ہوں گے۔واضح رہے کہ 2 روز قبل اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) سے عبوری ضمانت خارج ہونے کے بعد عمران خان نے حفاظتی ضمانت کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

#/S

انسداد دہشتگردی عدالت نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف اور سابق وزیراعظم عمران خان کیخلاف پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس سے دہشتگردی کی دفعات خارج کر دیں۔ انسداددہشتگردی عدالت میں چیئرمین پی ٹی آئی کیخلاف پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس میں دہشتگردی کی دفعات کیخلاف درخواست پر سماعت ہوئی۔ دوران سماعت عدالت نے پی ٹی وی اور پارلیمنٹ حملہ کیس سے دہشتگردی کی دفعات خارج کر دیں، انسداد دہشتگردی عدالت کے جج راجہ جواد عباس حسن نے فیصلہ سنایا۔ عمران خان کے شریک ملزم نے دہشت گردی کی دفعات خارج کرنے کی درخواست دائر کی تھی جبکہ عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ و انتظار حسین پنجوتھہ ایڈوکیٹ نے درخواست دی تھی۔ اے ٹی سی نے دہشتگردی کی دفعات نکال کر کیس سیشن کورٹ کو بھیج دیا۔ یاد رہے کہ 2014 میں پی ٹی آئی کے دھرنے میں پی ٹی وی اور پارلیمنٹ پر حملے کے مقدمات درج کئے گئے تھے، جس میں دہشتگردی کی دفعات بھی شامل کی گئی تھیں۔