•   2018 ء کی انتخابی دھاندلی میں ملوث ذمہ داران کے خلاف ادارے کارروائی کریں
  • وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مبارکباد دیتا ہوں ۔ مردم شماری پر شہری مطمئن نہیں ہیں
  •  تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے ۔ کثیر آبادی ڈیجیٹل سسٹم سے لا علم ہے
  • عمران خان بدترین چور ثابت ہوا ہے ایک سال سے کارروائی کیوں رکی ہوئی ہے
  • سابقہ حکومت کی نا اہلی ناکامیوں بد انتظامی کو مزید منظر عام پر لانے کے لیے جلد رابطہ عوام مہم شروع کی جائے گی
  • جمعیت علماء اسلام ( ف ) کے سربراہ کی پریس کانفرنس

اسلام آباد  (ویب نیوز)

جمعیت علماء اسلام ( ف ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کا حصہ نہ بننے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ کمیٹی کے نتائج سامنے آنے پر مذاکراتی عمل پر اپنی رائے قائم کریں گے ۔ 2018 ء کی انتخابی دھاندلی میں ملوث ذمہ داران کے خلاف ادارے کارروائی کریں ۔ وزیر اعظم شہباز شریف کو اعتماد کا ووٹ لینے پر مبارکباد دیتا ہوں ۔ مردم شماری پر شہری مطمئن نہیں ہیں ۔ تحقیقاتی کمیشن بنایا جائے ۔ کثیر آبادی ڈیجیٹل سسٹم سے لا علم ہے ۔ عمران خان بدترین چور ثابت ہوا ہے ایک سال سے کارروائی کیوں رکی ہوئی ہے سابقہ حکومت کی نا اہلی ناکامیوں بد انتظامی کو مزید منظر عام پر لانے کے لیے جلد رابطہ عوام مہم شروع کی جائے گی ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کو اسلام آباد میں مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ مولانا فضل الرحمان نے تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات سے انکار کردیا اور کہا کہ ان کی جماعت سینیٹ میں بھی پی ٹی آئی سے ہونے والے مذاکرات کا حصہ نہیں بنے گی  مزاکرات کا نتیجہ سامنے آنے پر اپنی رائے قائم کریں گے ۔الیکشن کیلئے مشاورتی عمل سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا کام ہے، سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کو مجبور کر رہی تھی کہ بات چیت کریں، ساری سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک شخص کو راضی کرنے پر اعتراض ہے۔انہوں نے کہا کہ عدالت مذاکرات کا بھی کہہ رہی ہے اور ساتھ ہی کہہ رہی ہے ہمارا فیصلہ اپنی جگہ موجود ہے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اب  سماعت پر عدالت کا رویہ تبدیل نظر آیا، کہا مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں لیکن ساتھ ہتھوڑا بھی دکھاتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ وہی ہے جو دیا ہے،، سپریم کورٹ پہلے اپنا ہتھوڑا ہٹائے ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ سینیٹ میں بھی مذاکرات کا حصہ نہیں بنیں گے اپنے موقف پر قائم ہیں، موقف دے چکا ہوں کہ  ہم پی ٹی آئی کے ساتھ مذاکرات کے حق میں نہیں۔سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں پی ٹی آئی سے مذاکرات موضوع تھا،  ہم نے پوچھا کہ پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں ہوں؟ اس کی بنیاد کیا ہے؟انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ سیاسی جماعتوں کو بات چیت پر مجبور کررہی تھی، عدالت عظمی کیوں 90 دن میں پھنس گئی، فیڈریشن کو بچانا آئین کو بچانا ہے، پنجاب میں جو پارٹی کامیاب ہوگی وہی وفاق میں کامیاب ہوگی، ۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہم جو بات کریں گے سیاسی زاویے سے کریں گے، ہمارے نزدیک سینیٹ آف پاکستان فیڈریشن کی نمائندگی کرتا ہے، اپنے اصول کے تحت سینیٹ کمیٹی کا حصہ نہیں بن رہے۔انہوں نے کہا کہ مردم شماری کے عمل پر عدم اعتماد کیا جارہا ہے،  اندرون سندھ، کوئٹہ، فاٹا میں مردم شماری پر عدم اعتماد کیا گیا، مجموعی طور پر 5 سال میں ہماری آبادی کم ہوگئی ہے، 5 سال میں آبادی بڑھنی چاہیے،ہماری آبادی کم ہوگئی۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ تاریخ میں قومی، صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن ایک ہی تاریخ کو ہوئے ہیں، ہماری نظر وفاق پاکستان پر ہے ، اگر بنیادی ڈھانچے کا ایک ستون بھی گرتا ہے تو پوری عمارت گرتی ہے ۔انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کو مشاورت کیلئے بلالیتا ہے تو اس کیلئیہم  تیار ہیں، سپریم کورٹ کا فیصلہ اس وقت 14 مئی سے متعلق ہے ، عدالت کا فیصلہ ناقابل عمل ہے، اس کا ادراک انہیں خود کرلینا چاہیے،یہ ہماری پارٹی کی سوچ ہے ، مردم شماری کے مسئلے کا ہماری جماعت نے نوٹس لیا ہے، مردم شماری کے طریقہ کار ، مردم شماری کی کمپین پر عدم اعتماد کیا جارہا ہے۔سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ  انتخابی اصلاحات سے متعلق پارلیمان کی کمیٹی نے سفارشات مکمل کرلی ہیں، پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پرکیوں قانون سازی نہیں ہوئی؟ قانون سازی ہونی چاہیے، 2018 میں بہت بڑی دھاندلی ہوئی، ذمہ داران کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے ادارے کاروائی کریں ۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ نہیں سمجھتا پی ٹی آئی کے ساتھ بیٹھ کرسیاسی حل نکل سکتا ہے، ہماری مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا، ہم حکومت کا حصہ ہیں لیکن ہماری جماعت کا اپنا اجلاس تھا، الیکشن کا کام سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ الیکشن کمیشن کا کام ہے ، ساری سیاسی جماعتوں کی جانب سے ایک شخص کو راضی کرنے پر اعتراض ہے۔ سربراہ پی ڈی ایم نے کہا کہ پوری تاریخ میں ملک میں انتخابات اکٹھیہوتے چلے آ رہے ہیں،  وزیراعظم سے کہا ہے کہ سینیٹ کمیٹی کا مذاکرات کا نتیجہ آنے تک اپنی رائے محفوظ رکھیں گے۔رابطہ عوام شروع کررہے ہیں عمران خان کی چوریو ں پر ایک سال کیوں پردہ ڈالا جارہا ہے اس کا احتساب کیوں نہیں ہورہا ہے۔