اسلام آباد (ویب نیوز)

  • نظرثانی میں عدالت کو انصاف کے لئے آرٹیکل 187کا اختیار بھی استعمال کرنا چاہیے،وکیل الیکشن کمیشن
  •  ہم سراہتے ہیں کہ اب الیکشن کمیشن اور وفاق نے بھی اپنے جواب میں آئینی اورقانونی ایشوز کے اوپر بات کی ،چیف جسٹس
  • الیکشن کمیشن کے وکیل کی دلیل مان لیں تونظرثانی میں ازسرنوسماعت کرنا ہو گی،جسٹس اعجاز الاحسن
  • پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عوام کے حقوق انتخابات سے جڑے ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے،جسٹس منیب اختر

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمرعطابندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات کیس میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائرنظر ثانی درخواست پر سماعت آج (بدھ تک) ملتوی کردی ۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کے وکیل بیرسٹر سجیل شہریارسواتی نے اپنے جزوی دلائل مکمل کر لیے جبکہ وہ بدھ کو  بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔ کیس کی سماعت بدھ کو  دن ساڑھے 12بجے دوبارہ ہو گی۔ دوران سماعت اپنے دلائل میں سجیل شہریارسواتی کا مئوقف تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نظرثانی میں ایسا حکم جاری کرسکتی ہے جس میں پہلے سے جاری حکم کو ختم کیا جاسکتا ہے اورنظرثانی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے پاس وسیع اختیارات ہیں۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اہم سوال کا جواب بھی ہمیں دینا ہے کہ آپ جن آئینی اورقانونی نکات کے اوپر دلائل دے رہے ہیں یہ جوابات آپ نے کیس کی سماعت کے پہلے مرحلے میں کیوں نہیں دیئے، کیا الیکشن کمیشن نے خود یہ دلائل نہیں دیئے یا وہ بھی کسی کے کہنے پر ان آئینی اورقانونی نکات پر دلائل نہیں دیئے گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پہلے کبھی ججز کی تعداد کے اوپر بات کی جاتی تھی، کبھی فل کورٹ، کبھی چارتین کا نکتہ اٹھایا گیا، کبھی کسی جج کو کہا جاتا تھا کہ وہ معذرت کر لیں ، کبھی کہا جاتا تھا کہ بینچ تبدیل کر لیں،کبھی کہا جاتا تھا کہ اس کو شامل کریں، اس کو نہ کریں لیکن وفاقی حکومت اورالیکشن کمیشن آف پاکستان نے بھی آئینی اورقانونی ایشوز کے اوپر دلائل نہیں دیئے، ان سوالات کے جوابات بھی آج لے کر آیئے گا۔جو باتیں آپ نے لکھ کردی ہیں وہ پہلے کیوں نہیں کی گئیں؟الیکشن کمیشن کے وکیل کا کہنا تھا کہ نظرثانی میں عدالت کو انصاف کے لئے آرٹیکل 187کا اختیار بھی استعمال کرنا چاہیے، عدالت کا تفصیلی فیصلہ آجائے توزیادہ آسان ہو جائے گا۔ چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ ہم سراہتے ہیں کہ اب الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وفاق پاکستان نے بھی اپنے جواب میں آئینی اورقانونی ایشوز کے اوپر بات کی ہے اورآئین اورقانون کے مطابق اپنے دلائل شروع کئے ہیں جو پہلے مرحلہ میں نہیں کئے گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا نظر ثانی کو اپیل میں تبدیل مت کریں،آئین نے آرٹیکل184-3میں اپیل کا حق نہیں دیا، کیا کسی اور ادارے نے اب الیکشن کمیشن کو یہ مئوقف اپنانے پر مجبور کیا؟جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کے وکیل کی دلیل مان لیں تونظرثانی میں ازسرنوسماعت کرنا ہو گی، آئین میں نہیں لکھا کہ نظرثانی اور اپیل کا دائرہ کاریکساں ہو گا۔ جسٹس منیب اختر کا الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگرآپ کی دلیل مان لیں تو بہت پیچیدگیاں پیداہوجائیں گی، نیا مئوقف تو اپیل میں بھی نہیں اپنایا جاسکتا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دائرہ اختیار بڑھانے کے لئے آئین میں واضح ہونا چاہیے۔ ہ دوران سماعت پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن کی درخواست پر جواب جمع کروادیا گیا۔ جواب میں پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی نظرثانی اپیل مستردکرنے کی استدعا کی ہے ۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ انتخابات سے کروڑوں عوام کے حقوق جڑے ہیں، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے عوام کے حقوق انتخابات سے جڑے ہیں، عوامی مفاد تو 90 روز میں انتخابات ہونے میں ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق نظرثانی کا دائرہ اختیارنہیں، طریقہ کار محدود ہے۔جسٹس منیب اختر نے وکیل الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ عدالت نظرثانی کیس میں اپنے دائرہ اختیار کا فیصلہ کیوں کرے، نظرثانی کیس میں آپ کا موقف ہے کہ دائرہ محدود نہیں، کیا یہ بنیادی حقوق کے مقدمہ کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں، سپریم کورٹ کیوں اپنے دائرہ اختیارمیں ابہام پیدا کرے۔وکیل الیکشن کمیشن نے موقف اپنایا کہ آرٹیکل 184/3 میں اپیل کا حق نہیں دیا گیا، اپیل کا حق نہ ہونے کی وجہ سے نظرثانی کا دائرہ محدود نہیں کیا جا سکتا۔چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا سپریم کورٹ اپنے دائرہ کار کو یکجا کر کے استعمال کر سکتی ہے۔ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ بالکل سپریم کورٹ اپنے دائرہ کار کو یکجا کرکے استعمال کر سکتی ہے، عدالت کو نظرثانی میں انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھنا ہے، عدالت کو نظرثانی میں ضابطہ کی کارروائی میں نہیں پڑنا چاہیے، آئینی مقدمات میں نیا نقطہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ بعدازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت بدھ کو سوا 12 بجے تک ملتوی کردی۔