پاکستان تحریک انصاف نے موجودہ معاشی اعدادوشمار جاری  کردیئے

مالی سال 2024 کا بجٹ  بحران سے نکلنے کا کوئی روڈ میپ پیش نہ کر سکا.

اکاؤنٹ میں رقم نہیں ہے اور اگلے چند ماہ میں بڑی ادائیگیاں  ہونی  ہیں

اپریل 2022 سے اپریل 2023 کے درمیان حکومتی  قرضے میں 15.6 کھرب  روپے کا اضافہ ہوا ہے

مہنگائی نے پچھلے 75 سالوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں جو  38 فیصد تک پہنچ گئی ہے،

  مالی سال 2023 میں 80 لاکھ لوگ  بے روزگار ہو گئے ، موجودہ بجٹ  سے عام آدمی  ،، ہٹ ،،  ہوگا،

ن لیگ کے گزشتہ  تین ادوار میں روپے کی قدر میں کمی ، برآمدات کی تنزلی اور تاریخی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کا سامنا رہا ،

ترجمان پی ٹی آئی کا وفاقی بجٹ 2023.24پر ردعمل

اسلام آباد (ویب  نیوز)

پاکستان تحریک انصاف نے معاشی اعدادوشمار جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہمالی سال 2024 کا بجٹ  بحران سے نکلنے کا کوئی روڈ میپ پیش نہ کر سکا، اپریل 2022 سے اپریل 2023 کے درمیان حکومتی  قرضے میں 15.6 کھرب  روپے کا اضافہ ہوا ہے مہنگائی نے پچھلے 75 سالوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں جو  38 فیصد تک پہنچ گئی ہے،  مالی سال 2023 میں 80 لاکھ لوگ  بے روزگار ہو گئے پی ڈی ایم حکومت نے ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی کارکردگی گزشتہ 2 دہائیوں میں بہترین رہی، موجودہ وفاقی  بجٹ  سے عام آدمی  ،، ہٹ ،،  ہوگا، ن لیگ کے گزشتہ  تین ادوار میں روپے کی قدر میں کمی ، برآمدات کی تنزلی اور تاریخی کرنٹ اکاؤنٹ خسارے  جیسی مثالیں ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اتوار کو جاری بیان میں ترجمان تحریک انصاف نے  کہا ہے کہ6.1 فیصد سے ترقی کرتی معیشت آج صفر پر پہنچ گئی ہے،38 فیصد  شرح مہنگائی اور 48 فیصد خوراک  کے  افراط زر سے  75 سالہ مہنگائی کا  ریکارڈ ٹوٹ چکا ہے۔اپریل 2022 سے اپریل 2023 کے درمیان حکومتی  قرضے میں 15.6 کھرب  روپے کا اضافہ ہوا ہے، ترجمان تحریک انصاف کے مطابق موجودہ حکومت نے   جان بوجھ کر آئی ایم ایف پروگرام کو پٹڑی سے اتارا اور دوست ممالک سے مالی اعانت حاصل کرنے میں بھی ناکام ہیں،اسٹیٹ بینک کے ذخائر کم ہو کر 3.9ارب  ڈالر  رہ گئے جو ایک ماہ کی درآمدات کیلئے بھی کافی نہیں ہیں،ان کو جی ڈی پی کی کوئی سمجھ نہیں ہے،اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے مضحکہ خیز اعداد و شمار پیش کر  رہے ہیں،وزیر خزانہ قرض  کی  تنظیم نو اور قرض کی دوبارہ پروفائلنگ کے درمیان فرق بھی نہیں جانتے ، پی ڈی ایم حکومت نے ایک بار پھر اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی کارکردگی گزشتہ 2 دہائیوں میں بہترین رہی۔ تحریک انصاف کے دور میں  معیشت 6.1 فیصد کی شرح سے ترقی کر رہی تھی اور ریکارڈ ملازمتیں پیدا ہوئیں،سال2007  کے بعد پی ٹی آئی واحد حکومت ہے جس نے کورونا اور  کموڈٹی سپر سائیکل کے باوجود  لگاتار 2 سال 6 فیصد ترقی حاصل کی،تمام پیداواری شعبوں کی شاندار کارکردگی کے ساتھ  وسیع پیمانے پر ترقی ہو رہی تھی ،مالی سال 2022 میں زرعی شعبے کی شرح نمو 4.3 فیصد رہی ، جو 2005 کے بعد سب سے زیادہ ہے،لارج اسکیل مینوفیکچرنگ سیکٹر نے مالی سال 2022 میں 11.9 فیصد کی ریکارڈ نمو ظاہر کی،مالی سال 2005 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ صنعت نے مسلسل 2 سال 11 فیصد سے زیادہ ترقی کی،  پی ٹی آئی حکومت کے پہلے تین سالوں میں کل 55 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوئیں،یہ شرح ن لیگ حکومت (2013-2018) کے دوران پیدا ہونے والی اوسطا 1.1 ملین ملازمتوں سے تقریبا دوگنی ہے۔ ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ  اگر پی ٹی آئی کی حکومت کو اپنی 5 سالہ مدت پوری کرنے دی جاتی تو  نوجوانوں کے لیے ایک کروڑ نئی ملازمتیں پیدا کرنے کا وعدہ  پورا کیا جاتا، اسی کامیابی کی وجہ سے پی ڈی ایم حکومت نے عمران خان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے تمام ذرائع استعمال کیے۔ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ رواں سال کا اقتصادی سروے پی  ڈی ایم  حکومت   کی  تباہ  کن کارکردگی  کا عکاس ہے،مہنگائی نے پچھلے 75 سالوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں جو  38 فیصد تک پہنچ گئی ہے، پی ٹی آئی حکومت کے دوران  مالی سال 2022 میں اوسط مہنگائی صرف 12.2 فیصد تھی۔ ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ تقریبا 6 فیصد نمو کے دو سالوں  بعد جی ڈی پی کی شرح نمو 0 فیصد تک گر گئی ہے،رجعت پسندانہ  ٹیکس اقدامات اور پی ڈی ایم  حکومت کی طرف سے لاگو درآمدی پابندیوں کی وجہ سے لارج اسکیل مینوفیکچرنگ  میں 8% کمی واقع ہوئی،زراعت کا شعبہ سیلاب اور  زرعی مداخل کی  بڑھتی ہوئی لاگت سے بری طرح  متاثر ہوا،بڑی فصلوں کی پیداوار میں 3.2 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جو گزشتہ تین سالوں میں مسلسل 4 فیصد  رہی ، مالی سال 2023 کے پہلے 10 ما ہ  کے دوران ڈیزل کی فروخت میں 28 فیصد اور پٹرول کی فروخت میں 17 فیصد کمی واقع ہوئی، پی ڈی ایم حکومت میں  جہاں معیشت سکڑ رہی ہے ، وہیں حکومتی  قرض صرف تیرہ مہینوں میں 15.6 کھرب  روپے تک بڑھ گیا ہے۔ ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے پورے دور میں مرکزی حکومت کے قرضے میں 18.3  ارب روپے کا اضافہ ہوا،پی ڈی ایم حکومت کے پہلے نو ماہ میں گردشی قرضے میں 500 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے،پی ٹی آئی حکومت کے تحت مالی سال 2022 میں گردشی قرض میں 1 فیصد کی کمی ریکارڈ کی گئی،ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق  پی ڈی ایم حکومت کے تحت معیشت میں 3 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے  مالی سال 2023 میں 80 لاکھ لوگ  بے روزگار ہو گئے اور بے روزگاری کی شرح 10 فیصد تک بڑھ چکی  ہے، ڈاکٹر پاشا نے بھی واضح کیا ہے کہ پی ڈی ایم  حکومت کی تباہی تقریبا 18 ملین گھرانوں کو خطِ غربت  سے نیچے لانے کا باعث بنے گی،مالی سال 2024 کا بجٹ  بحران سے نکلنے کا کوئی روڈ میپ پیش نہ کر سکا،سال  2024 کے بجٹ میں جن اہداف کا اعلان کیا گیا ہے وہ حقیقت کے برعکس ہیں ،مالی  خسارہ 6.9 کھرب  روپے کے بجٹ ہدف کے مقابلے میں 8.5 کھرب  روپے ہو گا۔  ترجمان تحریک انصاف نے مزید کہا ہے کہ کم  شرح نمو اور ٹیکس اقدامات کے فقدان کی وجہ سے آمدن میں   600 ارب  روپے کی کمی واقع ہو  سکتی ہے،تنخواہوں ، پنشن  اور قرض  اخراجات میں اضافے کی  وجہ سے حکومتی اخراجات  تقریبا 1 کھرب  روپے تک بڑھ سکتے ہیں،حالیہ بجٹ  38 فیصد کی ریکارڈ شرح  مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنے گا ،بجٹ میں عوام کے ریلیف کیلئے کوئی اقدام نہیں اٹھایا  گیا،مالی سال 23 کیلئے افراط زر کا ہدف 11.5 فیصد تھا جو حکومت حاصل نہ کر سکی۔ حکومت نے مالی سال 2024 میں اوسط 21 فیصد افراط زر کی پیش گوئی کی ہے،فروری 2023 میں جی ایس ٹی کو  18 فیصد اور  کچھ اشیا کیلئے  25 فیصد تک بڑھا دیا گیا تھا،حکومت نے بجٹ میں  مہنگائی کے اس ٹیکس اقدام کو واپس نہیں لیا ہے،بڑھتے  حکومتی اخراجات اور مالی  خسارہ  افراط زر  میں اضافے کی بنیادی وجوہات  ہیں، جی ڈی پی شرح نمو کا ہدف 5% تھا لیکن پی ڈی ایم  حکومت نے 2023 میں 0.3% ترقی حاصل کی، اسٹیٹ بینک کا  21% پالیسی ریٹ 1998 کے بعد سب سے زیادہ ہے جس  کی وجہ سے نجی شعبہ تنزلی کا شکار ہے۔ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ صنعت کے  خام مال  کے حصول میں ناکامی  اور کاروبار کی بڑھتی لاگت  کی وجہ سے برآمدات میں 13 فیصد کمی آئی ہے،اس ماحول میں مالی سال 24 کے بجٹ کو دیکھتے ہوئے پیداواری شعبے میں  کوئی تیزی نظر آنے کا امکان نہیں ہے،مالی سال 24 کے لیے 3.5 فیصد ترقی کا ہدف حقیقت کے برعکس دکھائی دیتا ہے،ایف بی آر کا رواں مالی سال میں 7 کھرب  روپے ٹیکس  کا ہدف  بھی حاصل کرنے کا امکان نہیں ہے، سال 2022 میں پی ٹی آئی کی حکومت کو ہٹایا گیا تب ایف بی آر کی ٹیکس وصولی 6.1 کھرب روپے تک پہنچ گئی تھی، مالی سال 2023 کے لیے ایف بی آر  ریونیو کی وصولی 7.2 کھرب  روپے کے بجٹ ہدف کے مقابلے میں 7.47 کھرب  روپے تھی،مالی سال 23 کے پہلے 11 ماہ  میں، ایف بی آر کی وصولی میں صرف 16 فیصد اضافہ ہوا ہے،ٹیکس کولیکشن کی اس شرح سے واضح ہے کہ 7 کھرب روپے بھی حاصل کرنا مشکل ہوگا،مالی سال 23 میں 18 فیصد جی ایس ٹی اور سپر ٹیکس کی صورت میں عوام پر عائد کردہ اضافی بوجھ کے باوجود ٹیکس وصولی کم رہی ۔ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ سال 2024 کا ایف بی آر کا ہدف 9.2 کھرب  روپے مقرر کیا گیا ہے جو کہ 7.2 کھرب  روپے کے تخمینہ سے 28 فیصد اضافے کی نشاندہی کرتا ہے،درحقیقت، ایف بی آر کو یہ  ہدف پورا کرنے کے لیے 30 فیصد نمو حاصل کرنے کی ضرورت ہوگی جس سے  600 ارب روپے کی نمایاں کمی   کا امکان واضح ہے ،تباہ کن  ٹیکس نظام کو مزید وسعت دی گئی ہے اور اب سپر ٹیکس نظام میں  تمام رجسٹرڈ ٹیکس دہندگان کو شامل کیا جائیگا،یہ  مشکل معاشی ماحول کے پیش نظر مجرمانہ  اقدام ہے جس سے  بے روزگاری میں مزید اضافہ ہو گا،پی ٹی آئی حکومت کے تحت شروع کی گئی کلیدی ٹیکس اصلاحات  کو جان بوجھ کر سست کر دیا گیا ہے،ایف بی آر کی جانب سے شناخت کیے گئے 43 ملین سے زائد ممکنہ ٹیکس دہندگان کو ہدف نہیں بنایا گیا،ٹیکس حصول کیلئے وسیع اقدامات کی بجائے پی ڈی ایم حکومت نے ریٹیل سیکٹر کو ایک بار پھر بڑا ریلیف دیا ہے ،رواںمالی سال کے اخراجات کے اہداف قرضوں کی ادائیگیوں، سبسڈیز، اور ناقص طرز حکمرانی  کے باعث حاصل نہ ہو سکے،مالی سال 23 کے بجٹ کے 9.6 کھرب کے ہدف کے مقابلے میں کل اخراجات بڑھ کر 11.1 کھرب روپے ہو گئے، جو کہ 1.5 کھرب روپے زیادہ ہے، مالی سال 2024 کے بجٹ میں حکومت نے 14.46 کھرب روپے اخراجات کا ہدف رکھا ہے جو کہ 30 فیصد زیادہ ہے،ہمارے تخمینے کے مطابق  قرضوں کی فراہمی اور تنخواہوں اور پنشن میں اضافیکی وجہ سے اخراجات تقریبا 1 کھرب روپے سے تجاوز کر جائیں گے،حکومت نے مالی سال 24 میں 650 ارب روپے کے صوبائی سرپلس کا تخمینہ لگایا ہے، جو مالی سال 23 کے نظرثانی شدہ تخمینوں سے 42 فیصد زیادہ ہے،یہ  مفروضہ غیر حقیقی  ہے  کیونکہ پچھلے تین سالوں میں حقیقی صوبائی سرپلسز نمایاں طور پر کم رہا،مالی سال 23 میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے  میں 3.7 ارب  ڈالر سے 62 فیصد اضافے کا تخمینہ لگایا گیا ہے، یہ اضافہ  30ارب ڈالر  کی برآمدات اور30.5ارب ڈالر کی ترسیلات کے مفروضے پر مبنی ہے،پی ڈی ایم حکومت کی پالیسیوں کی وجہ سے رواں مالی سال میں ترسیلات زر اور برآمدات میں 13 فیصد کمی واقع ہوئی ہے،مالی سال 2024 کا بجٹ آئی ایم ایف کے لیے ایک اہم عنصر تھا اور حکومت نے جان بوجھ کر اس پروگرام  بحالی  کی کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے،آئی ایم ایف پروگرام کے بغیر کثیرالجہتی اور دو طرفہ تعاون کا کوئی  امکان نہیں ہے۔ترجمان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ  حکومت نے مالی سال 2024 کے بجٹ میں 23.9 ارب ڈالر کی بیرونی فنڈنگ کی پیش گوئی کی ہے،اس میں آئی ایم ایف  کی جانب سے 2.4ارب ڈالر کی بجٹ سپورٹ شامل ہے، جس کا  بجٹ اعلان کے بعد امکان نہایت کم ہے،بلند عالمی شرح سود،  ریٹنگ میں کمی اور آئی ایم ایف پروگرام کی معطلی کے باعث   کمرشل بینکس سے قرضوں کا حصول ناممکن ہے،جون میں ختم ہونے والے آئی ایم ایف پروگرام کی عدم موجودگی میں کسی بیرونی امداد کا  حصول  ناممکن ہوگا،پی ڈی ایم حکومت جانتی ہے کہ ان کی مدت اگست میں ختم ہو رہی ہے،حکومت نے دانستہ طور پر معیشت کو ایک ایسے مقام پر دھکیل دیا ہے جہاں اکاؤنٹ میں رقم نہیں ہے اور اگلے چند ماہ میں بڑی ادائیگیاں  ہونی  ہیں۔پی ٹی آئی حکومت میں احساس، صحت کارڈ جیسے  ٹارگٹڈ پروگراموں کے ذریعے سماجی اخراجات میں اضافہ کیا گیا،پی ٹی آئی کی حکومت نے احساس پروگرام کو وسیع کرتے ہوئے  کووڈ کے دوران  15 ملین سے زیادہ گھرانوں  کو نقد امداد فراہم کی،تحریک انصاف حکومت نے 130 ملین سے زیادہ شہریوں کو کووڈ کے خلاف مفت ویکسینیشن فراہم کی،احساس راشن پروگرام کا آغاز غریب ترین گھرانوں کو سبسڈی والے نرخوں پر گھی، آٹا اور دالیں فراہم کرنے کے لیے کیا گیا تھا ، یہ پروگرام پورے پنجاب اور کے پی کے میں شروع کیا گیا جس میں پاکستان بھر کے تقریبا 60 فیصد غریب ترین گھرانوں کا احاطہ کیا گیا تھا،پی ڈی ایم حکومت نے اس پروگرام کو روک    دیا ہے اور پروگرام سے منسلک  ڈیجیٹل مالیاتی ڈھانچے کو ختم کر دیا ہے،احساس پروگرام ختم کر کے سیاسی فائدے کیلئے مفت آٹا اسکیم شروع کی گئی جس میں بد انتظامی کے باعث متعدد اموات ہوئیں،مفت آٹا اسکیم کے نام پر کرپشن کے ذریعے عوامی وسائل کی خوب  لوٹ مار کی گئی ،محض سیاسی انتقام کیلئے  یونیورسل ہیلتھ انشورنس فراہم کرنے والے صحت کارڈز کو سبوتاژ کیا گیا اور فنڈنگ ضبط کر لی گئی ،کامیاب جوان، میرا گھر اور کامیاب پاکستان سمیت نوجوانوں اور کمزور گھرانوں کے لیے سبسڈی سکیموں کو روک دیا گیا ہے اوران  منصوبوں کے خاتمے سے ہزاروں نوجوان خصوصا خواتین کو  غربت  سے نکلنے کے مواقع سے محرو م کر دیا گیا ہے۔

#/S