• سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری یا انویسٹی گیشن تو ہونی چاہیے، یہ کہنا درست نہیں کہ سویلینز کا آرمی ایکٹ سے ٹرائل نہیں ہو سکتا.چیف جسٹس
  • جنرل پنجاب نے حکومت پنجاب کی جانب سے 9 مئی کے واقعات میں ملوث زیر حراست ملزمان کا ڈیٹا سپریم کورٹ  میں جمع کروا دیا۔
  • جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔
  • جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ جو آپ کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، 9 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟

اسلام آباد : (  ویب  نیوز )

چیف جسٹس  عمر عطا بندیال نے کہا ہے کہ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری یا انویسٹی گیشن تو ہونی چاہیے، یہ کہنا درست نہیں کہ سویلینز کا آرمی ایکٹ سے ٹرائل نہیں ہو سکتا، اگر کوئی سویلین کسی آرمی آفیشل سے مل کر ریاست مخالف کچھ کرے تو یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔

سماعت کے آغاز پر سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی روسٹرم پر آگئے، انہوں نے تحریری دلائل بھی جمع کروائے۔

علاوہ ازیں ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے حکومت پنجاب کی جانب سے 9 مئی کے واقعات میں ملوث زیر حراست ملزمان کا ڈیٹا سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا۔

رپورٹ میں فوج کی حراست میں موجود ملزمان، نابالغ بچوں، صحافیوں اور وکلا کا ڈیٹا شامل نہیں ہے، تاہم 9 مئی کے واقعات میں ملوث زیرحراست خواتین کا ڈیٹا جمع کروا دیا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 9 مئی کے واقعات میں 81 خواتین کو حراست میں لیا گیا، گرفتار خواتین میں سے 42 کو ضمانت پر رہا کیا گیا ہے، جبکہ 39 خواتین اس وقت جوڈیشل ریمانڈ پر جیلوں میں قید ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایم پی او کے تحت 2258 افراد کی گرفتاری کے آرڈر جاری کئے گئے، 9 مئی کی توڑ پھوڑ کے واقعات میں 3050 افراد ملوث پائے گئے، اس وقت ایم پی او کے تحت 21 افراد جیلوں میں قید ہیں، انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت 9 مئی کے واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف 51 مقدمات درج کئے گئے۔

رپورٹ کے مطابق انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت 1888 افراد کو گرفتار کیا گیا، 108 ملزمان جسمانی ریمانڈ اور 1247 جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت 33 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی، 500 افراد کو بے گناہ قرار دیتے ہوئے رہا کیا گیا، انسدادِ دہشتگردی قانون کے تحت 232 افراد ضمانت پر رہا ہوئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ واقعات میں ملوث ملزمان کے خلاف دیگر قوانین کے تحت 247 مقدمات درج کئے گئے، 247 مقدمات کے تحت 4119 افراد کو گرفتار کیا گیا، 86 ملزمان جسمانی ریمانڈ، 2464 کو جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجا گیا، دیگر مقدمات میں 368 افراد کی شناخت پریڈ کی گئی، اب تک 1201 افراد کو بری کیا گیا ہے، 3012 افراد کو مختلف مقدمات میں ضمانت پر رہا کیا گیا۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے، میں اس پر دلائل نہیں دوں گا کہ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہوسکتا، یہ بھی نہیں کہتا کہ ملٹری کورٹس کے ذریعے ٹرائل سرے سے غیر قانونی ہے، میں یہ بھی نہیں کہوں گا کہ 9 مئی کو کیا ہوا کیا نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ سویلین کے ٹرائل کی ماضی میں مثالیں ہیں، فوجی عدالتوں میں فوجداری ضابطے کے تحت کارروائی نہیں ہو سکتی ، اس کو چیلنج نہیں کیا، میں نے کسی ملزم کی بریت کو چیلنج نہیں کیا، فوج کے حوالے ملزمان کو کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کو چنا گیا، آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے، عدالت میں جا کر کہا گیا 15 لوگوں کو حوالے کر دیں، جن افراد کا انسداد دہشت گردی عدالت میں ٹرائل ہو گا ان کو اپیل کا حق ملے گا، جن کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہو گا انہیں اپیل کا حق حاصل نہیں۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ میرا مدعا تمام ملزمان میں سے چند کے ساتھ الگ سلوک ہوا، ایک ایف آئی آر میں 60 ملزمان ہیں تو 15 ملٹری کورٹس کو دیئے جاتے ہیں، ایف آئی آر میں جو الزامات ہیں ان پر تین الگ طرح کے ٹرائل ہو سکتے ہیں، میرا دوسرا نقطہ فیئر ٹرائل کا ہے، ایک الزام پر ٹرائل کے بعد کچھ لوگوں کے پاس اپیل کا حق ہوگا اور کچھ کے پاس نہیں۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پانچ فیصلے موجود ہیں جو آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998 میں ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلہ آیا، ملٹری کورٹس کیخلاف فیصلے میں آرمی ایکٹ کو زیر بحث نہیں لایا گیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ دوسرے کیسز میں آرمی ایکٹ سے متعلق کیا پرنسپل سیٹ کیا گیا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بہت کم ایسا ہوا کہ سول کورٹس کو بائی پاس کیا گیا ہو۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کن وجوہات کی بنا پر سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت کیا جاتا رہا ہے؟ کون سے ایسے مخصوص حالات ہیں جن میں ملٹری کورٹس میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟

فیصل صدیقی نے لیاقت حسین، سعید زمان اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کے کیسز کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلے یہ کہتے ہیں کہ واضح تفریق ہونی چاہیے، ہم نہیں کہتے کہ لوگوں کا سخت ٹرائل نہ ہو، انسدادِ دہشت گردی عدالت سے زیادہ سخت ٹرائل کہاں ہو سکتا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ جو آپ کرائم رپورٹ دکھا رہے ہیں اس میں تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات نہیں ہیں، 9 مئی کے واقعات کے مقدمات میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دلائل کی بنیاد یہ ہے کہ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نیشنل سکیورٹی کے باعث کہا گیا کہ یہ ٹرائل ملٹری کورٹس میں ہوا، سٹیٹ سکیورٹی کے حدود میں جائیں گے تو پھر ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہونے کا ذکر ہے۔

جسٹس مظاہر اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کو کب شامل کیا گیا؟، جسٹس یحییٰ آفریدی نے استفسار کیا کہ آپ نہیں سمجھتے کہ پہلے اٹارنی جنرل سے پوچھا جائے کہ مقدمات کیسے بنے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ دلائل جاری رکھیں وکلا کے بعد اٹارنی جنرل کو سنیں گے، ہو سکتا ہے اٹارنی جنرل کل مانگی گئی تفصیلات پر آج بیان دے دیں۔

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی نے کہا کہ کل عدالت نے پوچھا تھا کہ یہ درخواستیں پہلے ہائی کورٹ میں نہیں جانی چاہیے تھیں، ایک سے زیادہ صوبوں کا معاملہ ہے ایک ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار نہیں بن سکتا، یہ درخواستیں سپریم کورٹ میں ہی قابلِ سماعت ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ کیا درخواستوں کے قابلِ سماعت ہونے کی حد تک آپ کے دلائل مکمل ہیں؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ جی درخواستوں کے قابل سماعت ہونے تک دلائل مکمل ہیں اب آگے چلتے ہیں۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیئے کہ ہوسکتا ہے جن لوگوں کو ملٹری کورٹس کے حوالے کیا گیا ان پر الزامات کی نوعیت الگ ہو، آپ صرف مفروضہ پر کہہ رہے ہیں کہ ان لوگوں کیخلاف کوئی شواہد موجود نہیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آپ عمومی بحث پر جا رہے ہیں یہ بھی علم نہیں ان لوگوں کو کس کس شق کے تحت ملٹری کورٹس بھیجا گیا۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ فرض کریں ان کے خلاف شواہد بھی موجود ہیں تو دکھاؤں گا کہ انہیں کیسے ملٹری کورٹس نہیں بھیجا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اپنے دلائل متعلقہ نکات تک محدود رکھیں، آج کا دن درخواست گزاروں کیلئے مختص ہے، بے شک 3 بجے تک دلائل دیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ قانون یہ نہیں کہہ رہا ہے کہ ملٹری کے اندر کام کرنے والا بندہ ہو تو ہی آفیشل سیکرٹ ایکٹ لگے گا، ملٹری حدود کے اندر ہونے کے جرم سے تعلق پر بھی ایکٹ لاگو ہوتا ہے، ملٹری کورٹس میں کسی کو ملزم ٹھہرانے کا کیا طریقہ کار ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ممنوعہ علاقے عمارات اور کچھ سول عمارات پر بھی ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ آپ ابھی تک بنیادی پوائنٹ ہی نہیں بتا سکے، آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی دفعات ایف آئی آرز میں کب شامل کی گئیں؟ اگر ایف آئی آر میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات ہی شامل نہیں تو کیا کمانڈنگ آفیسر ملزمان کی حوالگی مانگ سکتا ہے؟

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ آپ سے 2 سوال پوچھ رہے ہیں اس پر آئیں، آپ طریقہ کار بتائیں کہ آرمی ایکٹ کا اطلاق کیسے ہوگا، آرمی کے اندر ایسے فیصلے تک کیسے پہنچا جاتا ہے کہ فلاں بندہ آرمی ایکٹ کے تحت ہمارا ملزم ہے؟، کیا ہمیں مکمل تفصیلات حاصل ہیں کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت فوج کیسے کسی کو ملزم قرار دیتی ہے۔

فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ یہی تو میری دلیل ہے کہ فوج سویلینز کی حوالگی کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سیکرٹ ایکٹ لگانے کیلئے کوئی انکوائری یا تحقیقات تو ہونی چاہیے، کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین فوج نے ہی کرنا ہے، فوج انسداد دہشت گردی عدالت میں سویلینز کی حوالگی کی درخواست دائر کر سکتی ہے، فوج کی سویلینز کی حوالگی کی درخواست میں صرف ٹھوس بنیاد نہیں دی گئی، اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے کہ کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کر سویلینز کی حوالگی کی درخواست نہیں کی گئی۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں ملزمان کی حوالگی کیسے اور کن شواہد پر ہوئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں شکایت کو ایف آئی آر کے طور پر لیا جاتا ہے؟ فیصل صدیقی نے جواب دیا آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا اطلاق تو پھر سول عمارات پر بھی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ وہ زیادہ پیچیدہ ہو جائے گا، آپ ان مقدمات میں طریقہ کار کا بتائیں۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے کہا آرمی ایکٹ کو رہنے دیں طریقہ کار کو دیکھیں، پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک ایک شخص کی گرفتاری کا معاملہ دیکھنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ ایسا کریں کہ بریک لے لیں، جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کافی وغیرہ پئیں، سوالات کے جوابات نہ دینے پر آپ کو جرمانہ دینا پڑے گا۔

و قفے کے بعد سماعت دوبارہ ہوئی تو سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرمی ایکٹ میں ٹرائل کیسے شروع ہوتا ہے، اس کا جواب آرمی رولز 1954 میں موجود ہے اور رول 157 کی سب سیکشن 13 میں طریقہ کار درج ہے، یہاں 9 اور 10 مئی کو واقعات ہوتے ہیں اور 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے، یہاں تو ہمیں حقائق میں جانے کی ضرورت بھی نہیں اور ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ چارج سے پہلے انکوائری کا ہم اٹارنی جنرل سے پوچھیں گے، آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ ان ملزمان کے خلاف بظاہر کوئی الزام نہیں۔

فیصل صدیقی نے کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں چارج کرنے سے پہلے سخت انکوائری ہونی چاہیے، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری پہلے ہونی چاہیے، تاریخ میں کبھی 1998 کے علاوہ سویلین حکومت نے سویلین کا ملٹری ٹرائل نہیں کیا، 9 مئی کے ملزمان سے متعلق دوسری عدالتوں میں ٹرائل کا قانونی آپشن موجود ہے، اگر کیس کسی آرمی آفیشل پر ہوتا تو بات اور تھی اب کورٹ مارشل کے علاوہ آپشن نہیں، آئینی ترمیم میں بھی سویلین کے علاوہ ملٹری کورٹس میں ٹرائل پر شرط رکھی گئی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا کبھی ایسا ہوا کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت ٹرائل صرف مجسٹریٹ نے کیا ہو؟ فیصل صدیقی نے بتایا کہ جی میں اس حوالے سے فیصلوں کی نظیریں پیش کروں گا۔

سول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل احمد حسین کے دلائل شروع ہوگئے۔

وکیل احمد حسین نے کہا کہ سوال یہ ہے کیا سویلین جن کا فوج سے تعلق نہیں ان کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ میرا موقف ہے کہ موجودہ حالات میں سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل نہیں ہو سکتا، ہمارا اعتراض یہ بھی نہیں کہ لوگوں کے خلاف کارروائی نہ ہو، ہمارا نقطہ فورم کا ہے کہ کارروائی کا فورم ملٹری کورٹس نہیں۔

وکیل احمد حسین نے دلائل میں کہا کہ سوال یہ ہے سویلین کے کورٹ مارشل کی آرمی ایکٹ میں گنجائش کیا ہے؟ آرمی ایکٹ کا کل مقصد یہ ہے کہ آرمڈ فورسز میں ڈسپلن رکھا جائے، جن افراد کو مسلح افواج کی کسی کمپنی وغیرہ میں بھرتی کیا گیا ہو ان پر ہی اس ایکٹ کا اطلاق ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے مطابق آئین کے کون سے بنیادی حقوق ملٹری کورٹس میں ٹرائل سے متاثر ہوں گے۔

وکیل احمد حسین نے کہا کہ آرٹیکل 10، 9 اور 25 میں دیئے گئے حقوق متاثر ہوں گے، 21 ویں آئینی ترمیم کا فیصلہ اسی 7 رکنی بنچ کو آرمی ایکٹ کی سیکشن 2 ڈی ون کو کالعدم کرنے سے نہیں روکتا، اگر عدالت سمجھتی ہے 21 ویں ترمیم کے بعد اس کے ہاتھ بندھیں ہیں تو فل کورٹ ہی بنا لیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ میں تو اسی میں کمفرٹیبل ہوں گا اگر اتنا ہی بنچ بیٹھے جتنے رکنی بنچ نے 21 ویں ترمیم کا فیصلہ دیا تھا۔

اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا فوجی عدالتیں مخصوص حالات کیلئے ہیں: جسٹس اعجاز الاحسن

جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیئے کہ اکیسویں آئینی ترمیم کیس میں عدالت نے کہا تھا فوجی عدالتیں مخصوص حالات کیلئے ہیں، اس فیصلے میں جنگی حالات جیسے الفاظ استعمال کئے گئے۔

وکیل احمد حسین نے کہا کہ میرے علم میں نہیں کہ موجودہ حکومت کا موقف ہو کہ آج کل جنگی حالات ہیں۔

نماز جمعہ کا وقفہ ختم ہونے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہو ا تو جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ فیئر ٹرائل ہر ایک کا بنیادی حق ہے جس سے محروم نہیں کیا جا سکتا، کورٹ مارشل کارروائی کے فیصلے آسانی سے میسر بھی نہیں ہوتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کارروائی کرتا کون ہے؟ وکیل احمد حسین نے کہا کہ ایک پینل ہوتا ہے جو کارروائی کنڈکٹ کرتا ہے اور ملٹری کورٹ فیصلے میں صرف اتنا لکھتی ہے کہ قصور وار ہے یا نہیں، اب فیصلے میں وجوہات کا ذکر ہوتا ہے یا نہیں اٹارنی جنرل بتا سکتے ہیں، ملٹری کورٹس میں اپیل کا تصور بھی آرمی افسران کے پاس ہی ہے، آرمی چیف ہی سارے پراسس میں فائنل اتھارٹی ہے اور کلبھوشن یادیو کیلئے اپیل کا خصوصی قانون بنایا گیا۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ فوجی ٹرائل چلانے والے بھی فوجی ہوتے ہیں، فوجی ٹرائل خفیہ ہوتا ہے اور اس کا ریکارڈ بھی خفیہ رکھا جاتا ہے جبکہ فوجی ٹرائل کے بعد فیصلے میں کوئی تفصیل بھی نہیں دی جاتی، فوجی ٹرائل کے فیصلے کے خلاف اپیل نہیں ہوتی اور اپیل صرف چیف آف آرمی سٹاف کے پاس جاتی ہے۔

سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے وکیل کی جانب سے کلبھوشن یادیو کیس کا حوالہ دیا گیا، انہوں نے دلائل میں کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کی روشنی میں حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کیلئے خصوصی قانون بنایا، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو بھی وکیل اور اپیل کا حق دیا گیا تھا، اس مثال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ فوجی عدالت کے ٹرائل کے خلاف اپیل کا حق نہیں ہوتا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا بین الاقوامی قانون میں بھی سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل ہوتا ہے، جس پر خواجہ احمد حسین نے کہا کہ کچھ ممالک میں ایسی موجود ہیں کچھ میں نہیں ہیں، آرمی ایکٹ فیئر ٹرائل یا سویلینز کو مدنظر رکھ کر نہیں بنایا گیا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا بین الاقوامی ممالک میں بھی سویلینز کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوتے ہیں، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہر ملک کا اپنا قانون ہے برطانیہ میں سویلینز کا فوجی ٹرائل ہو سکتا ہے، سینئر کمانڈ کے فیصلوں کے بعد کیا فوجی عدالت میں کوئی افسر فیئر ٹرائل کو فالو کر سکتا ہے؟ احمد حسین نے کہا کہ اپنے مقدمے کے آپ خود جج نہیں بن سکتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کن سویلینز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ملٹری افراد کے علاوہ سویلینز کے حقوق کا تحفظ دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سویلینز میں تو ہر شہری آتا ہے کیا ٹرائل صرف مخصوص افراد کا ہو سکتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ سویلینز کی تعریف کیا ہوگی کیا ریٹائرڈ آرمی افسران بھی سویلینز میں آئیں گے؟

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ اکیسویں آئینی ترمیم میں فوجی عدالتوں کی مخصوص مدت کا تعین کیا گیا تھا، 1975 میں چیف جسٹس حمود الرحمان کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے فیصلے میں کہا کہ سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی شقوں کو کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے، سویلین قوانین کا فائدہ فوجی نہیں حاصل کر سکتے، پارلیمنٹ کو یہ اختیار بھی حاصل ہے کہ محدود تعریف کیساتھ قانون سازی کر سکتی ہے، جسٹس منیب اختر میرے لئے یہ ہضم کرنا مشکل ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی اپیل یہ ہے کہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر قانون چیلنج کیا جا سکتا ہے، اس کا اصل فورم تو ہائیکورٹ ہے، سپریم کورٹ آرمی ایکٹ کی تمام شقوں کا جائزہ لے سکتی ہے۔

خواجہ احمد حسین نے کہا کہ سپریم کورٹ جائزہ لے کہ کیا سویلین کا ملٹری کورٹ میں ٹرائل ہوسکتا ہے، مجھے تو یہ بھی علم نہیں کیا شواہد ہیں اور کیا الزامات ہیں، حکومت کو جواب دینا چاہیے، عام عدالتیں کیوں انصاف فراہم نہیں کر سکتیں، مستقبل میں اگر فوجی عدالت فعال کرنی ہوئیں تو قانون سازی کر لیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیشنل سکیورٹی کا معاملہ آرمی براہ راست دیکھتی ہے، اگر کوئی قومی سلامتی کے خلاف سازش کرے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ فوج ٹرائل نہیں کر سکتی۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 199 تھری کے تحت ہائی کورٹ کے فوجی عدالتوں کے خلاف اختیارات محدود ہیں، ایف بی علی کیس کا فیصلہ 1962 کے آئین کے تحت تھا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ عام شہریوں کا تعلق آرمی ایکٹ سے کیسے جوڑیں گے کیسے بنیادی حقوق سے محروم کریں گے۔

وکیل احمد حسین نے دلائل میں کہا کہ میرا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ عدالت آرمی ایکٹ کی شقوں کا جائزہ لے سکتی ہے، عدالت نے جائزہ لینا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت سویلینز کا ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، اس کی وضاحت نہیں دی گئی حکومت نے سول عدالتوں پر عدم اعتماد کیوں کیا؟ ملٹری ٹرائل کے نتیجے میں کئی شہریوں کو کورٹ مارشل کا سامنا کرنا پڑے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ملکی سلامتی کے معاملات براہ راست آرمی کے تحت آتے ہیں، کیا طریقہ کار ہوگا جس کے تحت مقدمات ملٹری کورٹ کو بھجوائے جائیں گے۔

خواجہ احمد حسین کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں کوئی شخص گرفتار نہیں ہے، پشاور میں چار لوگ زیر حراست ہیں۔

منصور اعوان نے کہا کہ پنجاب میں ایم پی او کے تحت 21 افراد گرفتار ہیں، انسداد دہشت گردی قانون کے تحت 141 افراد گرفتار ہیں، سندھ میں 172 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 345 افراد گرفتار ہوئے اور 70 رہا ہوئے، ایم پی او کے تحت 117 افراد جوڈیشل تحویل میں ہیں، 102 افراد فوج کی تحویل میں ہیں۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو مزید بتایا کہ فوج کی تحویل میں کوئی خاتون اور کم عمر نہیں ہیں، کوئی صحافی اور وکیل فوج کی تحویل میں نہیں ہیں، خیبرپختونخوا میں 2 بچے تحویل میں تھے، ملٹری کسٹڈی میں ایک پر شک تھا کہ وہ 18 سال سے کم عمر ہے، اس کا ٹیسٹ کروا رہے ہیں، اگر 18 سال سے کم ہوا چھوڑ دیا جائے گا، پالیسی فیصلہ ہے کہ بچے اور خواتین آرمی کی حراست میں نہیں ہوں گے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ صحافیوں سے متعلق کیا پالیسی ہے۔

وفاقی حکومت کی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی کوئی پالیسی نہیں: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ 9 مئی کے واقعات پر کسی صحافی کو حراست میں نہیں رکھا گیا، وفاقی حکومت کی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی کوئی پالیسی نہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس وقت دو صوبوں میں نگران حکومت ہے، مہربانی کر کے صوبائی حکومتوں سے رابطہ کریں، صوبائی حکومتوں سے صحافیوں اور وکلا سے متعلق پالیسی کا پوچھیں، بنچ کے کچھ اراکین کو صحافیوں اور وکلا سے متعلق تحفظات ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے امن قائم کرنے کیلئے درجہ حرارت کو کم کرنا ہے، دیکھنا ہے کہ امن اور سکون کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی طرف سے کچھ گزارشات عدالت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ تحریری طور اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا سکتے ہیں، ہم چاہتے ہیں منگل تک اس کیس کا کوئی نہ کوئی نتیجہ نکال سکیں۔

ایڈووکیٹ عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مجھے اٹھا لیا گیا تھا، مجھے یقین دہانی کروائی جائے کہ اگر پھر میں اپنے کلائنٹ سے ملنے جاؤں تو پھر نا اٹھا لیا جاؤں۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ایڈوکیٹ عزیر بھنڈاری جو کہہ رہے ہیں، ایسا ان کے ساتھ کچھ نہیں ہوا۔

اٹارنی جنرل کے دلائل کے دوران ہی چیف جسٹس نے کیس کی مزید سماعت پیر کی صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی۔