مقبوضہ کشمیرمیں موذن سے جے شری رام کے نعرے لگوانے کے واقعہ نے افسپا پر پھر سے ایک نئی بحث چھیڑ دی

تین دہائیوں سے افسپا کے سنگین نتائج پر کشمیر کے سیاسی اور سماجی حلقے ناراضگی کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں، ا س قانون کو ہٹانے کا مطالبہ بھی

انڈین حکومت ہر بار وہی استدلال پیش کرتی ہے جو وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے پیش کیا۔ یعنی مکمل امن آئے تو افسپا ہٹ جائے گا

مبصرین اب یہ پوچھنے لگے ہیں کہ امن کی علامت کیا ہے ؟ برطانوی نشریاتی ادارے کی خصوصی رپورٹ

سرینگر (ویب  نیوز)

مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے زاڈورہ گاوں کی ایک مسجد میں انڈین فوجی اہلکاروں کے زبردستی داخل ہونے اور موذن سے جے شری رام کے نعرے لگوانے کے واقعہ نے جموں و کشمیر میں نافذ نہایت متنازعہ فوجی قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ یا افسپا پر پھر سے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق مقبوضہ ریاست جموں و کشمیر میں افسپا کا نفاذ 1990 میں مسلح شورش کے آغاز کے ساتھ ہی ہوا تھا۔ اس وقت یہ قانون انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں میں بھی نافذ ہے۔اس قانون کے تحت فوجی یا نیم فوجی اہلکار یا پولیس کسی بھی شخص کو بغیر وارنٹ کے گرفتار کرسکتے ہیں، کسی بھی رہائشی اور تجارتی عمارت پر دھاوا بول سکتے ہیں اور کسی بھی شخص کو شبہ کی بنیاد پر بغیر عدالتی سماعت کے حراست میں رکھ سکتے ہیں۔اس قانون کی اہم بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی سے متعلق شکایات کی عدالتی سماعت انڈین حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔زاڈورہ گاوں کی مقامی سِول سوسائٹی کے سربراہ محمد الطاف بٹ اس واقعہ کے چشم دید گواہ ہیں۔ انھوں نے بتایا: گزشتہ روز رات کے ڈیڑھ بجے گاوں میں فوجی دستہ داخل ہوا اور ان کے ساتھ ایک افسر بھی تھا۔ فوجیوں نے مجھے گھر سے باہر نکلنے کو کہا تو مجھے لگا کسی مشتبہ شدت پسند کی تلاش ہورہی ہے۔ انھوں نے مجھ سے کہا گاوں میں نیا فوجی دستہ تعینات ہوا ہے اور انھیں کاونٹرانسرجنسی کی تربیت دی جا رہی ہے جس کے لیے یہ مشق ہورہی ہے۔الطاف بٹ کا کہنا ہے کہ رات بھر لوگ فوجی سرگرمی سے بیدار ہی رہے، کیونکہ اس  آپریشن کے دوران کم از کم 10 افراد کو حراست میں بھی لیا گیا جن میں سے پانچ کو شدید مارا پیٹا گیا۔ زخمی افراد میں الطاف کے بیٹے جاوید احمد بھی ہیں جو پیشے سے استاد ہیں۔الطاف بٹ کے مطابق جب فجر کی اذان کا وقت ہوا تو موذن مسجد میں اذان کے لئے گیا تو فوجی اہلکار بھی اس کے پیچھے مسجد میں داخل ہوگئے اور انھیں لاوڈ سپیکر پر جے شری رام  کے نعرے لگانے پر مجبور کیا۔صبح ہونے پر مقامی لوگوں نے اس واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے کی کوشش کی تاہم انتظامیہ اور پولیس افسروں نے انھیں تحقیقات کا یقین دلا کر خاموش کردیا۔پولیس کے ایک اعلی افسر نے بتایا کہ اس سلسلے میں تحقیقات شروع ہوچکی ہیں۔ فوج کے ایک افسر نے بھی نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ فوج اندرونی طور پر بھی اس واقعہ کی چھان بین کررہی ہے اور تحقیقات مکمل ہونے تک گشت کی نگرانی کرنے والے افسر کو فی الحال ہولڈ کیا گیا ہے۔مقامی لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چند ہفتے قبل اس علاقے میں ایک جھڑپ ہوئی تھی جس میں فوج کا جانی نقصان ہوا تھا۔ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلی عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے انڈین حکومت سے اپیل کی ہے کہ اس واقعہ کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی جائیں اور یہ یقینی بنایا جائے کہ مستقبل میں اس قسم کے واقعات رونما نہ ہوں۔پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے بھی ٹویٹ میں لکھا: یہ واقعہ نہ صرف پریشان کن ہے بلکہ خوفزدہ کرنے والا ہے۔ وزیردفاع اور وزیرداخلہ کو نوٹس لینا چاہئے کہ ایسا دوبارہ نہ ہو۔دو درجن سے زائد مذہبی و سماجی انجمنوں کے اتحاد متحدہ مجلس علما  نے اپنے ایک بیان میں اس واقعے کو سرکاری سرپرستی والے اداروں کی طرف سے جموں کشمیر کے مسلمانوں کے مذہبی معاملات میں مداخلت قرار دیا ہے۔متحدہ مجلس علما کے مطابقحکام کی خاموشی ناقابل قبول ہے کیونکہ لوگوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوئے ہیں اور انھیں گہرا صدمہ ہوا ہے۔واضح رہے پلوامہ میں یہ واقعہ ایسے وقت رونما ہوا ہے جب انڈین وزیرداخلہ امیت شاہ جموں و کشمیر کے دو روزہ دورے پر تھے اور ان کی دلی واپسی کے بعد وزیردفاع راج ناتھ سنگھ جموں کشمیر میں سکیورٹی جائزہ اجلاس کی سربراہی کررہے تھے۔سیاسی اور سماجی حلقوں کی طرف سے شدید اپیلوں کے باوجود راج ناتھ سنگھ نے اس واقعہ کا ذکر نہیں کیا۔ تاہم انہوں نے کہا کہ آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ (افسپا) کو ہٹانے کی خاطر حکومت جموں کشمیر میں مکمل امن کی بحالی کا انتظار کررہی ہے۔گزشتہ تین دہائیوں کے دوران فوج اور نیم فوجی اداروں کے خلاف انسانی حقوق کی پامالیوں سے متعلق سینکڑوں شکایات درج کی گئی ہیں۔ یہ شکایات اغوا کے بعد قتل، خواتین پر جنسی تشدد اور ٹارچر سے متعلق تھیں۔ تاہم ابھی تک ایک بھی کیس میں کسی ملوث فوجی اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج ہوا نہ کسی کو سزا ہوئی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ افسپا کے سیکشن 7 کے تحت مقامی حکومت یا عدالت کسی بھی فوجی کے خلاف انڈین حکومت کی پیشگی اجازت کے بغیر کوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔ 2019 میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ افسپا جموں و کشمیر میں جوابدہی کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔حالانکہ 2015 میں جب کشمیر کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور انڈیا کی حکمران جماعت بی جے پی کے درمیان جموں و کشمیرمیں مشترکہ حکومت بنانے کے لئے معاہدہ ہوا تو معاہدے میں بی جے پی نے افسپا کو بتدریج ہٹانے پر اتفاق کرلیا تھا تاہم بعد میں اس معاہدے کے خالق اور بی جے پی کے جنرل سیکریٹری رام مادھو نے کہا کہ پی ڈی پی کی سربراہ محبوبہ مفتی کے ساتھ اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ افسپا کو کسی تفریح کے لئے نافذ نہیں کیا گیا (کہ اسے یونہی ہٹایا جائے)۔کئی برس پہلے جب اس وقت کی پی ڈی پی حکومت کے وزیراعلی مفتی سید نے بھی افسپا کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تو اس وقت کے ایک اعلی فوجی افسر لیفٹینٹ جنرل بی ایس جیسوال نے کہا تھا کہ افسپا اِز اے ہولی بک یعنی افسپا ایک مقدس کتاب ہے۔اس کے بعد 2008 میں عمرعبداللہ وزیراعلی بن گئے تو انھوں نے یہ مطالبہ کیا کہ کم از کم سرینگر، جموں اور ایسے دیگر شہروں سے یہ قانون ہٹایا جائے جو اب پرامن ہیں۔ اس وقت کے وزیرداخلہ پی چدامبرم نے اس تجویز پر اتفاق بھی کرلیا تھا۔ تاہم انڈیا کی وزارت دفاع کی مخالفت سے یہ معاملہ پھر ایک بار سرد خانے میں چلا گیا۔افسپا کی حمایت کرنے والے اداروں کا موقف ہے کہ فوج کے پاس کورٹ مارشل کی شکل میں باضابطہ اندرونی نظام موجود ہے اس لئے کسی بھی خلاف ورزی کے لیے فوج پہلے سے جوابدہ ہے تاہم تین دہائیوں سے جتنی بھی شکایات سامنے آئی ہیں انھیں مناسب شواہد نہ ملنے کی بنا کر مسترد کیا جاتا رہا ہے۔2005 میں کشمیر کے پتھری بل علاقے میں فوج نے پانچ شہریوں کو ایک فرضی جھڑپ میں ہلاک کرکے انھیں غیرملکی دہشت گرد قرار دیا اور دعوی کیا کہ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے سن 2000میں مارچ کے مہینے میں چھِٹی سنگھ پورہ میں درجنوں سِکھ شہریوں کا قتل عام کیا تھا۔تاہم ان کی شناخت کے بعد جب انکشاف ہوا کہ وہ عام شہری ہیں تو وادی میں احتجاج کی لہر پھیل گئی اور اس وقت کے وزیراعلی فاروق عبداللہ نے اس معاملہ کی تحقیقات انڈیا کی وفاقی ایجنسی سی بی آئی سے کروانے کا اعلان کیا۔دو سال بعد سی بی آئی نے فوج کے خلاف چارج شیٹ داخل کی تو فوج نے یہ کہہ کر اسے غیرقانونی قرار دیا کہ اس کے لئے انڈین حکومت کی پیشگی اجازت حاصل نہیں کی گئی۔معاملہ جب سپریم کورٹ میں چلاگیا تو عدالت عظمی نے فوج کو یہ آپشن دی کہ وہ یا تو عدالت میں مقدمہ چلنے دیں یا پھر ملزموں کا کورٹ مارشل کریں۔فوج نے کورٹ مارشل کا انتخاب کیا اور بعد میں اعلان کیا کہ پیش کیے گئے سبھی ثبوت اور شواہد ناکافی ہیں اس لئے کسی بھی ملزم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی۔تین دہائیوں سے افسپا کے سنگین نتائج پر کشمیر کے سیاسی اور سماجی حلقے ناراضگی کا اظہار بھی کرتے رہے ہیں اور اس قانون کو ہٹانے کا مطالبہ بھی۔ لیکن انڈین حکومت ہر بار وہی استدلال پیش کرتی ہے جو وزیردفاع راج ناتھ سنگھ نے پیش کیا۔ یعنی مکمل امن آئے تو افسپا ہٹ جائے گا۔ تاہم مبصرین اب یہ پوچھنے لگے ہیں کہ امن کی علامت کیا ہے؟تجزیہ نگار اور سینئر صحافی ہارون ریشی کہتے ہیں: یہ باتیں ہم بچپن سے سنتے آئے ہیں۔ لیکن یہاں کے نائب گورنر اورانڈین حکومت پچھلے چار سال سے کہتے ہیں کہ کشمیر امن اور ترقی کی نئی راہوں پر چل پڑا ہے۔ اگر افسپا سے پرابلم ہورہا ہے تو اس کو ہٹانا امن کا سب سے بڑا ثبوت ہوسکتا ہے۔ ہر سال ایک کروڑ سیاح آتے ہیں، عالمی کانفرنسیں ہورہی ہیں، ہڑتال، پتھراو اور روزانہ جھڑپیں ماضی کی باتیں ہیں۔ اگر یہ امن نہیں ہے تو امن کی علامت کیا ہے؟۔

#/S