پاکستان کی عیدالاضحیٰ کے موقع پر سویڈن کی مسجد کے باہر قرآن پاک کو سرعام نذرآتش کرنے کے مذموم اور مکروہ فعل کی شدید الفاظ میں مذمت

اسلام آباد۔ (ویب نیوز )

پاکستان نے عیدالاضحیٰ کے موقع پر سویڈن میں ایک مسجد کے باہر قرآن پاک کو سرعام نذرآتش کرنے کے مذموم اور مکروہ فعل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ جمعرات کو دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ آزادی اظہار اور احتجاج کی آڑ میں امتیازی سلوک، نفرت اور تشدد کے لئے اس طرح کے جان بوجھ کر اکسانے کے اقدام کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بیان کے مطابق بین الاقوامی قانون کے تحت ریاستوں کا فرض ہے کہ وہ مذہبی منافرت کی کسی بھی وکالت پر پابندی عائد کریں جو تشدد کو بھڑکانے کا باعث بنے، مغرب میں گذشتہ چند ماہ کے دوران اس طرح کے اسلامو فوبک واقعات کا ہونا اس قانونی فریم ورک پر سنگین سوال اٹھاتا ہے جو نفرت پر مبنی کارروائیوں کی اجازت دیتا ہے۔
بیان میں اس بات کا اعادہ کیا گیا کہ آزادی اظہار اور رائے کا حق نفرت کو ہوا دینے اور بین المذاہب ہم آہنگی کو سبوتاژ کرنے کا لائسنس فراہم نہیں کرتا۔ دفتر خارجہ نے اپنے بیان میں مزید کہا ہے کہ واقعہ پر پاکستان کے تحفظات سویڈن تک پہنچائے جا رہے ہیں، ہم ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ بین الاقوامی برادری اور قومی حکومتوں دونوں پر لازم ہے کہ وہ زینو فوبیا، اسلامو فوبیا اور مسلم دشمنی کے بڑھتے ہوئے واقعات کو روکنے کے لئے قابل اعتماد اور ٹھوس اقدامات کریں۔

 

 

 

 

سوئیڈن نے عید کے پہلے روز قرآن پاک کو شہید کرنے کی اجازت دے دی

اشتعال انگیز اقدام کے پیچھے عراقی پناہ گزین ہے

سٹاک ہوم ( ویب  نیوز)

سوئیڈن کی عدلیہ اور پولیس نے اسلام مخالف انتہا پسندوں کو اجازت دے دی ہے کہ وہ عیدالاضحی کے پہلے روز یعنی بدھ کو قرآن پاک کے نسخے کو جلا کر شہید کر سکتے ہیں۔یہ اشتعال انگیزانہ فعل دارالحکومت اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے باہر انجام دیا جانا ہے جہاں پر بدھ کی صبح سے پولیس کی متعدد گاڑیاں جمع ہیں۔ کئی دیگر یورپی ممالک کی طرح سوئیڈن میں بھی مسلمان بدھ کے روز عید منا رہے ہیں۔سوئیڈن میں اسلام مخالف انتہا پسندوں نے ترکی اور اسلام کے ساتھ مخاصمت کے سبب پہلے بھی دو مرتبہ قرآن پاک شہید کرنے کی کوشش کی تھی تاہم پولیس نے اس کی اجازت نہیں دی۔ اس کے بعد یہ معاملہ عدالت پہنچ گیا۔سوئیڈش میڈیا کے مطابق پولیس نے قرآن پاک کو جلانے کی اجازت نہ دینے کا جواز سیکورٹی خدشات کو قرار دیا تھا تاہم عدالت نے قرار دیا کہ سیکورٹی کا کوئی خدشہ نہیں۔عدالت نے کہاکہ قرآن پاک کو جلانے سے جڑے سیکورٹی خدشات اس قسم کے نہیں ہیں کہ موجودہ قوانین کے تحت اس قسم کے اجتماع کی اجازت نہ دی جائے۔سوئیڈن میں اس سے قبل بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ دائیں بازو کے سیاستدان راسموس پالوڈن کئی اجتماعات میں قرآن پاک کو شہید کرچکے ہیں یا کرنے کی کوشش کر چکے ہیں۔تاہم بین الاقوامی ذرائع ابلاغ کا کہناہے کہ اس مرتبہ قرآن پاک شہید کرنے کی کوشش کے پیچھے پالوڈن نہیں ہے۔ خبر ایجنسی روئیٹرز کے مطابق قرآن پاک کو شہید کرنے کا منصوبہ ایک عراقی پناہ گزین نے ترتیب دیا ہے اور اس میں صرف دو افراد شریک ہوں گے۔انہی دو افراد کو اجازت نامہ جاری کیا گیا ہے۔ یہ کوئی بڑا اجتماع نہیں ہوگا تاہم پولیس ان کی سیکورٹی کے لیے موجود ہوگی۔مذکورہ عراقی کا نام سلوان مومیکہ بتایا گیا ہے جو 37برس کا ہے۔ اس شخص نے پہلے بھی ایک مرتبہ یہی اجازت مانگی تھی جو مسترد کردی گئی۔سوئیڈن میں فروری میں قرآن پاک کو شہید کرنے کی ایک کوشش کو انتظامیہ نے رکوا دیا تھا تاہم اس سے کچھ عرصہ قبل دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے ترکی کے سفارتخانے کے سامنے قرآن پاک کو شہید کیا تھا۔یہ انتہا پسند ترکی کے خلاف احتجاج کر رہے تھے جو ان کے خیال میں نیٹو میں سوئیڈن کی شمولیت کا مخالف تھا۔اپریل 2022 میں سوئیڈن میں قرآن پاک کو شہید کیے جانے کے بعد شدید ہنگامے ہوئے تھے،اس واقعے پر ترکی نے سوئیڈن کے وزیر دفاع کا دورہ انقرہ منسوخ کردیا تھا اور واضح کیا تھا کہ ترکی سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کی حمایت نہیں کرے گا۔سوئیڈن کے وزیراعظم اس کے باوجود یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ملک کو نیٹو میں شامل کیا جائے گا۔ ایک حالیہ انٹرویو میں انہوں نے کہاکہ وہ ترکی کے فیصلے کا احترام کرتے ہیں لیکن امید ہے کہ نیٹو کے آئندہ اجلاس سے پہلے اس معاملے پر بات ہوگی۔سی این این کے مطابق نیٹو کے حکام سوئیڈن کو 11 جولائی تک فوجی اتحاد میں شامل کرنے کا اعلان کرچکے ہیں۔ تاہم ترکی اب تک سب سے بڑی رکاوٹ ثابت ہو رہا ہے۔سوئیڈش عدالت نے قرآن پاک کو شہید کرنے کی اجازت دینے کا جواز آزادی اظہار کے حق کو قرار دیا ہے تاہم سوئیڈش وزیراعظم اولف کرسترسون نے ملکی مفادات میں اس کی مخالفت کی ہے۔اولف کرسترسون نے کہا کہ یہ فعل قانونی ضرور ہے لیکن مناسب نہیں۔ بدھ کو پریس کانفرنس میں انہوں نے کہاکہ اس معاملے میں قیاس آرائی کی ضرورت نہیں کہ قرآن کو جلانے کی اجازت دینے سے سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت پر کیا اثرات ہوں گے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک ایسے وقت میں جی رہے ہیں جہاں ہمیں پرسکون رہنا چاہیے اور سوئیڈن کے طویل المدتی مفادات کے بارے میں سوچنا چاہیے۔کرستوسون نے جنوری میں بھی ایسے واقعات پر افسوس کا اظہار کیا تھا۔۔