جموں وکشمیرکے کسی بھی حصے کی وابستگی کا تعین کرنے کے لیے یکطرفہ اقدامات ریاست کا حتمی حل نہیں ہو گا۔ پاکستان
 5 اگست 2019 کو اور اس کے بعد  جموں وکشمیر میں بھارتی یکطرفہ اقدامات غیر قانونی ہیں عملی طور پر کالعدم ہیں۔منیر اکرم
 جموں وکشمیر  میں آبادی کا تناسب بدلا جارہا ہے زمینیں اور جائیدادیں بھی فوجی اور سرکاری استعمال کے لیے ضبط کی جا رہی ہیں

 نیویارک( ویب نیوز )

پاکستان نے اقوام متحدہ میں واضح کیا ہے کہ جموں وکشمیرکے کسی بھی حصے کی وابستگی کا تعین کرنے کے لیے یکطرفہ اقدامات ریاست کا حتمی حل نہیں ہو گا۔  اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل  کی قرارداد کے تحت بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو اور اس کے بعد کیے گئے تمام یکطرفہ اقدامات نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ عملی طور پر کالعدم ہیں۔اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے جنرل اسمبلی کی خصوصی کمیٹی میں جموں و کشمیر پر بھارت کے قبضے کو جدید دور کے نوآبادیاتی نظام کا بدترین مظہر قرار دیتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق طویل مدت سے حل طلب تنازعہ کشمیر کے پرامن حل پر زور دے۔ منیر اکرم نے جنرل اسمبلی کی سپیشل پولیٹیکل اینڈ اور ڈی کالونائزیشن (چوتھی) کمیٹی کو بتایا کہ 1946 کے بعد سے 80 سابق کالونیوں نے آزادی حاصل کی ہے لیکن اب بھی ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں حق خود ارادیت سے محروم رکھا گیا ہے جن میں سب سے نمایاں طور پر بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر اور فلسطین کے لوگ شامل ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 47 اور اس کے بعد کی متعدد قراردادوں میں واضح طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جن میں کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل کا حتمی فیصلہ اقوام متحدہ کی سرپرستی میں آزادانہ اور شفاف استصواب رائے کے ذریعے اس کے عوام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ ان قراردادوں کو بھارت اور پاکستان دونوں نے قبول کیا اور اقوام متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت دونوں فریق ان قراردادوں پر عمل درآمد کرنے کے پابند ہیں۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ 5 اگست 2019 کے اقدام کے بعد بھارت نے اپنے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کو ضم کرنے کے لیے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدامات کیے ہیں جسے بھارتی رہنماں نے حتمی حل قرار دیا ہے۔منیر اکرم نے کہا کہ سلامتی کونسل کی قرارداد 122(1957)کے مطابق ریاست جموں و کشمیر کے مستقبل اور پوری ریاست یا اس کے کسی بھی حصے کی وابستگی کا تعین کرنے کے لیے یکطرفہ اقدامات ریاست کا حتمی حل نہیں ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اس قرارداد کے تحت بھارت کی طرف سے 5 اگست 2019 کو اور اس کے بعد کیے گئے تمام یکطرفہ اقدامات نہ صرف غیر قانونی ہیں بلکہ عملی طور پر کالعدم ہیں۔انہوں نے کہا کہ کشمیر آج دنیا کا ایسا علاقہ ہے جہاں قابض غیر ملکی فوجیوں اور شہریوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، جہاں 9 لاکھ  سے زائد بھارتی قابض فوجی وہاں تعینات ہیں جنہوں نے جعلی مقابلوں اور نام نہاد کورڈن اینڈ سرچ آپریشنز کے دوران کشمیریوں کوماورائے عدالت قتل ، 13ہزار کشمیری نوجوانوں کو اغوا اور جبری لاپتہ کیا اور پورے گاں اور شہری محلوں کو تباہ کیا اور جلایا۔انہوں نے کہا کہ بھارت ایک کلاسک آبادکار نوآبادیاتی منصوبے کے تحت اپنے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر کو مسلم اکثریتی ریاست سے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ پاکستانی مندوب نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں 3.4 ملین سے زیادہ جعلی ڈومیسائل سرٹیفکیٹ ہندوں کو جاری کیے گئے ہیں۔انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ کشمیریوں کی زمینیں اور جائیدادیں بھی فوجی اور سرکاری استعمال کے لیے ضبط کی جا رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی جارحانہ مہم ہندوتوا نظریے پر مبنی ہے جو ہندوں کی مذہبی اور نسلی بالادستی اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھاوا دیتی ہے۔ اس کی وجہ سے تنظیم جنیو سائیڈ واچ کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں نسل کشی کے امکان اور درحقیقت، خود بھارت کے اندر مسلمانوں کے خلاف خبردار کرنے کے لیے آگے بڑھا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے حصول کے لیے تنازعہ کشمیر کا حل ضروری ہے۔منیر اکرم نے کہا کہ بھارت پر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے حل کے لیے بات چیت کے لیے حالات پیدا کرے۔اس مقصد کے لییبھارت اپنے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے ۔وہاں آبادیاتی تبدیلی کے عمل کو روکے اور واپس لے اور 5 اگست 2019 کو اور اس کے بعد کیے گئے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کو واپس لے۔پاکستانی مندوب نے کہا کہ اقوام متحدہ اور اس کے تمام رکن ممالک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق تنازعہ کشمیر کے پرامن حل کو فروغ دینے کے چارٹر کے پابند ہیں۔