بحریہ ٹائون کی 190 ملین پاونڈز اور کراچی لینڈ کیسز میں درخواستیں مسترد
بیرون ملک سے آئی تمام رقم حکومت پاکستان کو ملے گی،سپریم کورٹ کا حکم
سات سال میں460 ارب روپے حکومت کو ادا کرنے کاحکم برقرار
اسلام آباد(ویب نیوز)سپریم کورٹ آف پاکستان نے بحریہ ٹائون کی درخواستیں مستردکرتے ہوئے حکم دیا ہے کہ90 1ملین پاونڈز کی مد میںبیرون ملک سے آئی رقم حکومت پاکستان کو جائے گی، بحریہ ٹاؤن کو 460 ارب سات سال میں ادا کرنے کا سپریم کورٹ کا حکم برقرار رکھا گیا ہے ۔ جب کہ مجموعی طور پر 65ارب روپے میں سے بیرون ملک سے آئے 35ارب روپے و فاق کو ملیں گے۔بحریہ ٹائون کی جانب سے جمع کروائے گئے30 ارب روپے سندھ حکومت کو ملیں گے۔عدالت نے قراردیا کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ سے متفق ہیں یہ رقم سپریم کورٹ اپنے پاس نہیں رکھ سکتی۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ سروے رپورٹ کے مطابق بحریہ ٹائون کراچی کا 16896ایکڑ سے زائد زمین پر قبضہ ہے۔ بحریہ ٹائون نے یکطرفہ طور پر اقساط کی ادائیگی روک دی،بحریہ ٹائون نے اضافی زمین پر بھی قبضہ کررکھا ہے۔متعلقہ حکام کی مدد کے بغیر ایسا نہیں ہوسکتا تھا۔سرکاری حکام نے عوام اور صوبہ کے مفاد کو سرینڈر کیا۔سرکاری حکام نے اپنے آفس کا غلط استعمال کیا۔سرکاری حکام کا کام عوام کی خدمت کرنا ہے۔حکمنامہ میں کہا گیا ہے کہ ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے یقین دہانی کروائی کہ غفلت کے مرتکب افسران کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔فیصلے پر عمل نہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی ہو گی۔عدالت نے قراردیا کہ سپریم کورٹ کا 2019کا فیصلہ برقرارہے۔حکومتی سطح پر الاٹیز کا ریکارڈ نہ رکھنے پر لوگوں کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس امین الدین خان اورجسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے بحریہ ٹائون کراچی کی جانب سے 460ارب روپے کی عدم ادائیگی کے حوالہ سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سپریم کورٹ کے حکم پر بحریہ ٹائون کراچی کے زیر قبضہ زمین کی پیمائش کے حوالہ سے قائم کمیٹی کی رپورٹ پیش کی۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا بحریہ ٹائون کے سربراہ ملک ریاض حسین کے وکیل سلمان اسلم بٹ سے مکاملہ کرتے کہا کہ ہم رات تک بیٹھے ہیں آپ دلائل دیں اوراگر ہم مطمئن نہ ہوئے تو پھر آپ پر بھاری جرمانہ عائد کریں گے ۔ دوران سماعت 10رکنی سرکاری کمیٹی کی جانب سے بحریہ تائون کے زیر قبضہ زمین کے حوالہ سے رپورٹ جمع کروائی گئی۔ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ بحریہ ٹائون کراچی 3 ہزار ایکڑ سے زائر پر قابض ہے، 16 ہزارکی بجائے بحریہ کے پاس 19 ہزار ایکڑ سے زیافہ رقبہ ہے۔چیف جسٹس نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سے سوال کیا کہ سرواے کا بحریہ تائون کو پتا تھا کہ نہیں، کون کون ساتھ تھے۔ ڈپٹی کمشنر ملیر نے بتایا کہ تین روز تک صبح 9بجے سے شام 6بجے تک سروے کیا گیااورسروے آف پاکستان سے تکنیکی معاونت لی گئی۔ 532ایکڑ پرالگ سے بحریہ تائون گرین جامشورو بنایا گیا ہے اوراس کی منظوری سیہون ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے لی گئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الزام تھا کہ کیرتھر نیشنل پارک میں جارہے ہیں۔ اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ کا کہنا تھا کہ نہیںجارہے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ ریاست ایک طریقہ سے چلتی ہے اورایڈووکیٹ جنرل سندھ آکر بتارہے ہیں کہ پروٹیکٹڈ زمین پر قبضہ ہو گیا ہے۔ سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ میں پہلے جمع کروائی گئی رپورٹ کو پڑھوں گا پھر جواب دوں گا۔ اس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا نو ، ہم آپ کی درخواست مسترکریں گے،اگر صرف لڑائی کرنے آئے ہیں تو ہم آپ کو نہیں سنیں گے، ہم نے آپ کو نہیں بلایا، آپ خود ہمارے پاس آئے ہیںاور الزام لگایا ہے کہ زمین کم ملی ہے، ہم نے آپ کی خاطریہ ایکسرسائز کی اوررپورٹ تیار کروائی، تین سال پہلے درخواست دائر کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ میں سول سوٹ نہیں چل رہا ہمارا کوئی ریگارڈ نہ کریں بلکی قانون کے مطابق چلیں، سیاسی تقریر نہ کریں۔ اس پر سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ میں سیاسی تقریر نہیں کررہا بلکہ قانون کی بات کررہا ہوں۔ سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ مجھے 16868ایکڑ زمین ملنا تھی تاہم مجھے 11747ایکڑ زمین ملی۔ سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ آرڈر میں تھا کہ میرے قبضہ میں کتنی زمین ہے، جب بھی کوئی رپورٹ آتی ہے تو مجھے پڑھنے اور جواب دینے کا وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے سلمان اسلم بٹ کو ہدایت کی کہ آپ آگے چلیں ہم نے آپ کوسن لیا ہے۔سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے رولز مجھے اجازت دیتے ہیں کہ مجھے جواب دینے کا وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے سلمان اسلم بٹ کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ عدالت آئے تھے کوئی اورعدالت نہیں آیا، رپورٹ آئی ہے آپ کسی چیز پر بھی اعتراض کرسکتے ہیں، جینوئن اعتراض ہے توکریں صرف اعتراض برائے اعتراض نہ کریں، 10افسران نے رپورٹ پر دستخط کئے ہیں ، کیا ساری دنیا آپ کے خلاف ہے، تین دن میں رپورٹ تیار کی اورآپ کہہ رہے ہیں اسے ٹوکری میں پھینک دیں، یہ رویہ درست نہیں، ہم وقت نہیں دیں گے، کوئی حق جواب دینے کا نہیں۔ سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ مجھے اعتراضات داخل کرنے کے لئے وقت چاہیئے۔ سلمان اسلم بٹ نے خط پڑھ کر سنایا جو رپورٹ کی تیاری کے حوالہ سے لکھا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے اسفسار کیا کہ کیااس خط میں کسی خاص معاملہ کاحوالہ دیاگیا ہے، اس خط میں کچھ نہیں۔ سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی 40سالہ وکالت میں پہلی مرتبہ دیکھا ہے کہ مجھے رپورٹ کا جواب دینے کا وقت نہیں دیا جارہا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم اس رپورٹ کو مکمل طور پر مستردکردیتے ہیں آپ پھر آگے چلیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا ہم خود ایگزیکیوٹنگ کورٹ ہیں، ہم جرمانہ لگانے کا سوچ رہے ہیں۔ اس پر سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ اگر یہ کیس یہاں پینڈنگ نہیں ہے تو ہم یہاں کیوں کھڑے ہیں۔ چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کیا جلد سماعت کی کوئی درخواست دی تھی۔ اس پر سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ ہم خود اپنے کیس سماعت کے لئے مقررنہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ آپ نے اپنی ڈیوٹی نہیں کی بلکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ آپ نے جلد سماعت کی درخواست نہیں دی۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ آپ کے موئکل بڑے پراپرٹی ڈویلپر ہیں اورآپ کہہ رہے ہیں کہ ان کے وکیل کرنے کے پیسے نہیں تھے، ہم یہی سپریم کورٹ میں بیٹھ کرسنیں گے۔ چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ زمین کے مالک نہیں بلکہ ڈویلپر ہیں اور یہ زمین ان لوگوں کی جنہوں نے پلاٹ خریدے ہیں اورسرمایاکاری کی ہے۔ سلمان اسلم بٹ نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے خود کمرشل پراجیکٹس چلائے ہوئے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے سلمان اسلم بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ڈونٹ بی پرسنل۔ اس پر سلمان اسلم بٹ نے معذرت کر لی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیوں اس عدالت کے فیصلہ پر عمل نہیں ہوا۔ جسٹس اطہر من اللہ نے سلمان اسلم بٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ منظور شدہ بلڈنگ پلان کہاں پر ہیں۔سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ قانون پر چلیں گے تومجھے جواب دینے کاحق ہے۔ ہمیں کم زمین ملکی جس کی وجہ سے ہمارے پلاٹ 1لاکھ42ہزارسے کم ہو کر 79ہزاررہ گئے۔ چیف جسٹس کا وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم نے نہیں کہا بلکہ آپ خودعدالت آئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آخری ادائیگی بحریہ ٹاوئن کے اکائونٹ میں کب کی۔ اس پر سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ آخری ادائیگی مئی2022میں 8ارب روپے کی گئی اوراب تک کل 65ارب روپے سپریم کورٹ میں جمع کروائے گئے ہیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کب تک460ارب روپے جمع کروانا تھے۔ اس پر سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ 7سال میں یکم ستمبر2026تک جمع کروانا تھے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آج تک شیڈول کے مطابق کتنی رقم جمع ہونا تھی۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے جوشیڈول دیا تھا اس کے مطابق آج تک کتنے پیسے جمع کروانا تھے۔ اس پر سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ میں قانون کے مطابق اس سوال کا جواب دوں گا۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم فیصلے میں لکھ دیں گے کہ ہم نے وکیل سے سوال پوچھا کہ آج تک کتنی رقم جمع ہونا تھی تو وکیل کی جانب سے جارحانہ رویہ اختیا رکیا گیا اور کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ اس پر سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا 96ارب روپے جمع ہونا تھے۔ مجھے 16ہزار ایکڑزمین دینا تھی جو کہ نہیں دی گئی اور11ہزار ایکڑزمین دی گئی اس لیئے میں نے پیسے دینے بند کردیئے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھ اکہ ہم سپریم کورٹ کا آرڈر ختم کردیں گے توپھر نیب کاروائی کاسامنا کرنا پڑے گااورمنصوبہ بھی ختم ہوجائے گا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ زمین کی قمیت آج کے حساب سے دوبارہ طے ہوگی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جو بحریہ تائون کے علاوہ رقم آئی ہے وہ ہم نہیں رکھیں گے اورحکومت کوسرینڈر کردیں گے۔ کچھ پیسے ہمارے اکائونٹ میں کہیں سے آگئے آرڈر میں تھا کہ بحریہ تائون نے پیسے جمع کروانا تھے۔ ہم پیسے کس قانون کے تحت اپنے پاس رکھ سکتے ہیں، ہم پیسے اسٹیٹ بینک آف پاکستان یا حکومت کودے دیں گے۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا ہم آئین کے تحت پیسے نہیں رکھ سکتے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ بینک میں چوری ہوئی اور کوئی آکر اس اکائونٹ میں پیسے رکھ دیتا ہے تو کیا ہم پیسے رکھ سکتے ہیں، کل کو ہم جرم میں شریک بن جائیں گے۔ مشرق بینک کاڈاکیومنٹ آیا ہے اس کے مطابق یہ پیسے ضبط ہوئے تھے۔ سلمان اسلم بٹ کا کہنا تھا کہ یہ پیسہ زمین مالکان کو جانا چاہیے۔ دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی اور بحریہ ٹاون کے وکیل سلمان بٹ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا، جبکہ سپریم کورٹ نے 190 ملین پاونڈز سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی درخواست بھی خارج کردی۔بحریہ ٹاون کیس کے دوران 190 ملین پاونڈز سرکاری خزانے میں جمع کرانے کی درخواست پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے شہری کی جانب سے دائر درخواست ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے خارج کر دی۔جسٹس اطہر من اللہ نے ریما رکس دئیے کہ نیب پہلے ہی اس کیس کی انکوائری کر رہا ہے، عدالت کی آبزرویشن نیب تحقیقات پر اثرانداز ہوسکتی ہے، نیب کو آزادانہ تحقیقات کرنے دیں۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ برطانیہ سے آئے 190 ملین پاونڈ ملک ریاض کے نہیں عوام کے ہیں، عوام کا پیسہ سرکاری خزانے میں جمع کرانے کا حکم دیا جائے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کا تعلق صرف 460 ارب روپے کی ادائیگی سے ہے، سپریم کورٹ کا اکاونٹ جانے اور عدالت جانے۔جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ درخواست گزار نے معلومات دینی ہیں تو نیب کو دے۔وکیل درخواست گزار نے کہا کہ برطانیہ نے ملک ریاض کا ویزا منسوخ کرکے داخلے پر پابندی عائد کی، برطانیہ نے 140 ملین پاونڈ اور نو بینک اکاونٹس منجمند کئے، منجمند کیے گئے اثاثوں میں پچاس ملین پاونڈ کی جائیداد بھی شامل تھی۔چیف جسٹس نے کہا کہ رقم جمع کرانے والوں کو نوٹس کر چکے ہیں، درخواست گزار کا حق دعوی نہیں بنتا، درخواست میں سپریم کورٹ کو معزز عدالت لکھا ہوا ہے، یہ معزز عدالت نہیں سپریم کورٹ آف پاکستان ہے۔جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ جج جج ہوتا ہے جج صاحب نہیں ہوتا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ساتھی جج لگتا ہے مجھے چھیڑ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے وکیل بحریہ ٹاون پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ مجھے قانون کے شعبے سے وابستہ ہوئے 41 سال ہو گئے ہیں، کچھ عزت دیں۔چیف جسٹس نے وکیل سلمان بٹ کو کہا کہ آپ ایسے ہی جاری رکھیں گے تو نتائج کیلئے بھی تیار رہیں۔چیف جسٹس نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ کو ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے لے آوٹ منظوری کا خط کب جاری کیا؟ وہ خط جاری نہیں کر رہے تھے تو آپ انہیں لکھ دیتے۔جس پر وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ آپ 16 ہزار ایکڑ زمین سے متعلق دوبارہ آرڈر کردیں کہ اس کا جائزہ لیا جائے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اور کوئی آرڈر نہیں دیں گے، آج ہی کیس مکمل کریں گے، ہم رات تک بیٹھے ہیں۔جس پر وکیل بحریہ ٹاون نے کہا کہ میں مزید کھڑا نہیں رہ سکتا۔ تو چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کو کرسی دے دیتے ہیں، بیٹھ کر دلائل دے دیں۔اس کے بعد چیف جسٹس نے عدالتی اسٹاف کو وکیل بحریہ ٹان کو کرسی دینے کی ہدایت کی، لیکن وکیل سلمان بٹ نے کرسی کی آفر قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے کوئی کرسی نہیں چاہیے۔جس پر چیف جسٹس بولے کہ ویسے مجھے بہت مایوسی ہو رہی ہے۔اس کے بعد وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ کو اختیار حاصل ہے وہ کسی بھی فیصلے کو واپس کرسکتی ہے، اور انہوں نے 2015 کے فیصلے کا حوالہ دیا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ وہ نظرثانی کے دائرہ اختیار میں ہوسکتا ہے۔وکیل بحریہ ٹاون نے کہا کہ کہیں کسی کے ساتھ زیادتی ہورہی ہو تو عدالت خود فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں ہوئی۔وکیل سلمان بٹ نے تکرار کرتے ہوئے کہا کہ زیادتی ہورہی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے ساتھ بات کرنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑتی ہے، پوری بات سن لیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے پاس کوئی شواہد نہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہوئی۔تو وکیل سلمان بٹ بولے کہ میں نے دستاویز لگا رکھے ہیں کہ معاہدے کے مطابق زمین ہمیں نہیں ملی۔چیف جسٹس نے وکیل بحریہ ٹاون سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ باتوں کو بار بار مت دھرائیں، آپ کسی چیز سے رنجیدہ ہیں تو متعلقہ فورم سے رجوع کریں، آپ سینئر وکیل ہیں پیچھے بیٹھے جونیئر وکلا نے بھی آپ سے سیکھنا ہے۔جس پر وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ میں کہہ رہا ہوں آپ جس فیصلے پر عملدرآمد کروا رہے ہیں وہ درست نہیں۔تو چیف جسٹس بولے کہ ہم عملدرآمد نہیں کروا رہے آپ خود اس معاہدہ میں شامل ہوئے تھے۔وکیل سلمان بٹ نے کہا کہ اس رضامندی سے ہوئے معاہدہ کو ختم کر دیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم اس فیصلے کے ایک لفظ کو بھی نہیں بدل سکتے۔اس کے بعد سماعت میں وقفہ کردیا گیا۔سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو دوران سماعت چیف جسٹس فائز عیسی اور بحریہ ٹان کے وکیل سلمان بٹ کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔وکیل سلمان بٹ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آہستہ آواز میں بات کریں تو جواب دوں گا، مجھے یہ گنوارا نہیں کہ عدالت سمیت کوئی بھی مجھ پر چلائے۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ ہمیں چلانے پر مجبور کر رہے ہیں، ہم چلا نہیں رہے تحمل سے سوال پوچھ رہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ سینئر وکلا کا یہ رویہ ہے تو وکالت کے شعبہ پر ترس آرہا ہے، جج پر انگلی اٹھانا آسان اور اپنی غلطی تسلیم کرنا سب سے مشکل کام ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ بحریہ ٹاون نے کم زمین ملنے کا دعوی 2019 میں کیا تھا، درخواست کیساتھ جو شواہد دکھا رہے ہیں وہ 2022 کے ہیں، جو نقشہ آپ دکھا رہے ہیں اس پر کسی کے دستخط ہیں نہ ہی مہر۔عدالت نے قرار دیا کہ نیب اس معاملے کی تحقیقات کر رہا ہے اس پر اثرانداز ہونا نہیں چاہتے ۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیئے کہ ہمارے ملک میں کسی بھی قانون پرعمل نہیں کیاجاتا،بڑیآدمی کاگھرریگولرائزہوجاتاہے،عام آدمی کی جھونپڑی گرادی جاتی ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی ڈویلپرپلاٹ کی الاٹمنٹ 200افرادکودیکرنکل جائیتوکیا تحفظ ہے؟،بیرسٹرصلاح الدین احمدنے کہا کہ بحریہ ٹاون الاٹمنٹ کاغذکاٹکڑادیتا ہیجس کا ریکارڈبھی بحریہ کے پاس ہی ہوتا ہے۔تاہم اس اہم کیس میں وکلاء کے دلائل مکمل ہوگئے اورججزمشاورت کی لئے چیمبرمیں چلے گئے۔بعدازاں ججز واپس کمرہ عدالت میں آئے اورفیصلہ سنایا۔ZS