شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 23 ہزار 469 ہوگئی
رفح شہر کے مشرق میں گھر پر بمباری،30 فلسطینی شہید ہوگئے
مزید 85 زخمیوں اور مریضوں سمیت 190 فلسطینیوں کو ترکیہ پہنچا دیا گیا ہے
تین ماہ میں غزہ کی380 مساجد اور 3 گرجا گھروں کو تباہ کیا گیا،140 مساجد مکمل تباہ
غزہ(صباح نیوز)غزہ کی پٹی میں 7 اکتوبر سے جاری اسرائیلی حملوں میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 23 ہزار 469 اور زخمیوں کی تعداد 59 ہزار 604 ہو گئی۔گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں مزید 112 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے پناہ لینے والے مقامات اور پناہ گزین کیمپوں پر بمباری کا سلسلہ جاری رکھا۔فلسطینی ہلال احمر کے مطابق اسرائیل کی جانب سے رفح شہر میں ایک مکان کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں ٹیموں نے 9 افراد کی لاشیں برآمد کیں۔اسرائیلی جنگی طیاروں کی جانب سے رفح شہر کے مشرق میں الشوکہ علاقے میں ایک گھر کو نشانہ بنانے کے نتیجے میں کم از کم 9 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور متعدد افراد زخمی ہوگئے۔غزہ کی پٹی کے مختلف مقامات پر اسرائیل کی مسلسل فضائی اور زمینی بمباری کے نتیجے میں 30 فلسطینی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اسرائیلی طیاروں نے خان یونس کے مرکز پر پرتشدد حملے کیے ، جس دوران جاں بحق اور زخمیوں تک پہنچنے کی کوشش کر نے والی ایمبولینسوں اور امدادی ٹیموں کو ہدف بنایا گیا۔
غزہ سے مزید 85 زخمیوں اور مریضوں سمیت 190 فلسطینیوں کو ترکیہ پہنچا دیا گیا ہے۔ ترکیہ وزارت صحت کی طرف سے ‘ ایکس ‘ پر پوسٹ میں بتایا گیا ہے کہ فسطینی مریضوں اور زخمیوں کی تازہ کھیپ جمعرات کے روز ترکیہ لائی گئی ہے۔جبکہ ان کے ساتھ ان کے اہل خانہ اور بچوں یا والدین کو بھی لایا گیا ہے۔ مریضوں کے علاوہ غزہ کے جنگ زدہ فلسطینیوں کی تعداد 106 بتایی گئی ہے۔ یہ اپنے رشتہ دار مریضں کی تیمار داری کے لئے ساتھ موجود رہیں گے۔ترکیہ کی وزارت صحت نے اس سلسلے میں کہا ہے’ چونکہ غزہ میں صحت کا پورا شعبہ اور ہسپتال بمباری کے علاوہ ناکہ بندی سے ناکارہ بنا دیا گیا ہے ترکیہ نے ان فلسطینیوں کے لئے اپنے ہاں علاج معالجے کا بندوبست کیا ہے۔
ا اسرائیلی قابض فوج نے تین ماہ سے زائد عرصہ میں 380 مساجد اور 3 گرجا گھروں کو تباہ کیا ہے، فلسطینی محکمہ اطلاعات کے مطابق "قابض فوج نے غزہ کی پٹی پر نسل کشی کی جنگ کے دوران 140 مساجد مکمل تباہ اور 240 کو جزوی طور پر تباہ کر دیا۔ اس کے علاوہ 3 گرجا گھروں کو نشانہ بنایا اور تباہ کر دیا۔ "مساجد کو تباہ کرنے کا سب سے نمایاں طریقہ ان پر میزائل اور بم پھینکنا تھا، جن میں سے کچھ کا وزن 2000 پانڈ تھا، جو ان کی مکمل تباہی کا باعث بنا۔”7 اکتوبر سے قابض فوج غزہ کی پٹی میں مذہبی، ثقافتی اور ورثے کی موجودگی کو مٹانے اور تاریخی شواہد اور فلسطینیوں کو ختم کرنے کی کوشش میں جان بوجھ کر غزہ کی پٹی میں مساجد، گرجا گھروں اور آثار قدیمہ کو نشانہ بنا رہی ہے۔غزہ کی پٹی پر تین ماہ کی جارحیت کے دوران "اسرائیلی” کی بمباری سے تباہ ہونے والی ان آثار قدیمہ اور تاریخی یادگاروں میں سب سے اہم عمری مسجد ہے، جس پر گذشتہ ماہ بمباری کی گئی تھی۔ اسے قدیم ترین عمارتوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ غغزہ شہر کی اہم تاریخی مساجد میں سے ایک السید ہاشم مسجد کو بھی جزوی طور پر تباہ کر دیا گیا۔ یہ الدرج کے پڑوس میں واقع ہے، جس کا رقبہ تقریبا 2,400 مربع میٹر ہے۔ اسے غزہ کی سب سے خوبصورت اور قدیم ترین مساجد میں شمار کیا جاتا ہے۔اس کے علاوہ قدیم الظفر ضمری مسجد کو بھی شہید کیا گیا۔یہ "اسرائیلی” بمباری کے نتیجے میں مکمل طور پر تباہ ہو گئی تھی۔ یہ ممالیک دور کی یاد گار ہے۔
فلسطینی پناہ گزین بھوک مٹانے کے لیے درختوں کے پتے کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ انبا العالم العربی (اے ڈبلیو پی) کے مطابق بہت سارے فلسطینی خیموں کے بغیر کھلے آسمان تلے ڈیرے ڈالنے پر مجبور ہیں۔شدید سردی اور بارش سے بچا کے لیے بھی ان کے پاس کچھ نہیں ہے۔ تقریبا 100 دن سے جاری جنگ نے ہزاروں فلسطینیوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ پناہ گزینوں کی مدد اور ان کے روزگار پر مامور بین الاقوامی ایجنسی (اونروا) کیاعدادوشمار کے مطابق مصری سرحد سے ملنے والے رفح شہر کی خیمہ بستی میں کم از کم 10 لاکھ فلسطینی رہ رہے ہیں۔یہ تعداد غزہ پٹی کے کل باشندوں کا 50 فیصد ہے۔ عبدالسلام حمد نامی ایک فلسطینی جو اپنے اہل خانہ کے ہمراہ رفح پہنچے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ تین دن سے بغیر خیمے کے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ عبدالسلام نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے خیمے میں رہنے والے دیگر پناہ گزینوں سے خواتین کو اپنے یہاں ٹھہرانے کی اجازت مانگی تھی جس پر ان کے مرد خیموں سے باہر آ گئے اور عورتوں کو خیمے میں جگہ دے دی گئی۔ ایک اور پناہ گزیں محمد غنام کا کہنا ہے کہ یہاں رفح میں کوئی ایسی جگہ خالی نہیں جہاں کسی نئے خیمے کا اضافہ کیا جا سکے۔ یہ شہر بلاشبہ خیموں کی بستی میں تبدیل ہوچکا ہے۔ غنام نے بتایا کہ ہلال احمر اور اونروا کی جانب سے کچھ خیمے اور کمبل تقسیم کیے جا رہے ہیں لیکن یہاں جتنی تعداد میں پناہ گزین پہنچے ہوئے ہیں وہ ان کی ضرورت کے لیے ناکافی ہیں۔ غنام نے کہا کہ خوراک کا حصول انتہائی مشکل ہو گیا ہے ہمیں بتایا گیا ہے کہ کئی لوگ بھوک مٹانے کے لیے پتوں پر گزارا کر رہے ہیں۔ فلسطینی ہلال احمر کی نبال فرسخ نے کہا کہ رفح کے حالات المناک ہیں۔ خان یونس میں اسرائیل کے مسلسل حملوں کی وجہ سے یہاں آنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے۔ نبال فرسخ نے کہا کہ یہاں پانی اور کھانے کی قلت ہے۔ بہت سارے لوگ پیاس بجھانے کے لیے ایسا پانی پی رہے ہیں جو آلودہ ہے۔اس پانی کی وجہ سے بیماریاں پھیلنے لگی ہیں۔ بہت سارے فلسطینی تنفس، سینے اور جلد کے امراض میں مبتلا ہو گئے ہیں۔ یاد رہے کہ رفح کا رقبہ 32 مربع کلومیٹر سے زیادہ نہیں جبکہ غزہ کا کل رقبہ 365 مربع کلومیٹر ہے۔