صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کیخلاف کیس میں ایف آئی اے اور پولیس کا جواب مسترد،سپریم کورٹ کا 15روز کے اندر دوبارہ تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم

میڈیا کی آزدی کے خلاف کوئی اقدامات قبول نہیں کئے جائیں گے۔سپریم کورٹ

  صحافیوں پر حملے سنجیدہ معاملہ ہے، اگر آئی جی اسلام آباد ملزمان کا پتا نہیںلگاسکتے توعہدہ چھوڑ دیں،چیف جسٹس

عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25مارچ تک ملتوی کردی

اسلام آباد( ویب  نیوز)

سپریم کورٹ آف پاکستان نے صحافیوں پر حملوں اورانہیں ہراساں کرنے کے معاملہ پر اسلام آباد پولیس اور ایف آئی اے کی جانب سے جمع کروایا گیا جواب مستردکرتے ہوئے 15روز کے اندر دوبارہ تفصیلی جواب جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔ عدالت نے قراردیا ہے کہ میڈیا کی آزدی کے خلاف کوئی اقدامات قبول نہیں کئے جائیں گے۔ اگر پولیس اورایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں پر حملوں کے حوالہ سے تحقیقات مکمل نہ ہوئیں توہم قراردیں گے کہ پولیس اورایف آئی اے سہولت کاری کررہی ہیں۔صحافیوں کو 25جنوری2024ایف آئی اے کی جانب سے جاری نوٹس سے لگتا ہے کہ یہ سپریم کورٹ ، رجسٹرار اورججز کی شکایت پر کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں، ہم نہ حکومتی حکام ہیں اور نہ سول سرونٹس ہیں۔ اداروں کو کام کرنے دیں۔عدالت نے کیس کی مزید سماعت 25مارچ بروزسوموار تک ملتوی کردی۔ جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ صحافیوں پر حملے سنجیدہ معاملہ ہے، اگر آئی جی اسلام آباد ملزمان کا پتا نہیںلگاسکتے توعہدہ چھوڑ دیں، اگر وہ ریکارڈڈ جرم کا پتا نہیں لگاسکتے توپھر میں اسلام آباد میں اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہوں۔ پولیس تفتیش قابل رحم ہے۔ میڈیا پر تواتر کے ساتھ حملے ہوں گے توپھر ہم یہ معاملہ دیکھیں گے، میڈیا پر حملوں کی وجہ سے ہی ازخود نوٹس لیا گیا تھا۔ کس قسم کے آئی جی اسلام آباد ہیں، ہم ان کوعہدے سے ہٹانے کی سفارش کریں گے، یہ نااہل آئی جی ہیں، اتنی گاڑیاں ہیں کسی کو پکڑ نہیں سکتے، اتنے ہوشیار ہیں، چار سال بعد بھی جیو فینسنگ کررہے ہیں۔ پوراپاکستان آئی جی اسلام آباد کی کارکردگی دیکھ رہا ہے۔ ہم آئی جی کوسہولت کارقراردیں گے۔ اسد علی طور کیوں جیل میں ہے۔ ہم نے تفصیلی رپورٹ مانگی تھی اورصرف دونمبر دے دیئے، اس طرح پاکستان نہیں چلایاجاسکتا۔آئی جی پولیس کاقافلہ چلتا ہے ،اسلام آبادسیف سٹی ہے ان کوکیا ڈر ہے،پتا توجلے آئی جی آیا ہے ، اپنی کارکردگی دکھائیں۔ صحافیوں کو نوٹس دینے کے معاملہ پر ہمارے کندھے پر بندوق رکھ کرچلارہے ہیں، نہ کسی جج اورنہ رجسٹرارسپریم کورٹ نے ایف آئی اے کو کوئی شکایت کی، یہ مہربانی کیوں کی، کیوں ہمارے اوپر احسان کررہے ہیں، عوام میں اس کا براتاثر جاتا ہے۔ ہم سے ایف آئی اے اجازت ہی لے لیتی کیوں ہمارانام بدنام کررہے ہیں، لوگ یقین کرلیتے ہیں۔ ایف آئی اے کواپنی دکان بند کردینی چاہیئے، یاتوکہیں کہ ہماری اہلیت نہیں پھردیگر اداروں کوجے آئی ٹی میں شامل کریں اور انٹرپول اورایم آئی 6کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔کیا آئی ایس آئی لاء انفورسمنٹ ایجنسی ہے؟ یہ انٹیلیجنس ایجنسی ہے اور کسی قانون پر عملدرآمد کااختیار نہیں رکھتی۔ اگر کسی شہری نے جرم بھی کیا ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کاروائی کی جائے۔ اسد علی طور کے معاملہ پر اٹارنی جنرل گریس شوکریں۔ ہم سب سے سینئر افسر کے خلاف ایکشن لیں گے اورٹاپ سے شروع کریں گے۔ ساری دنیا کے جرائم ابصار عالم کیس میں گرفتار ملزم حماد سلیمان پر ڈال دیں۔ ہم اٹارنی جنرل سے مکمل رپورٹ چاہتے ہیںکہ ماسٹر مائنڈ کون ہے، ماسٹر مائنڈ کے خلاف کیوں نہیں جارہے۔ کیا ویگو سستی گاڑی ہوتی ہے، مطیع اللہ جان کو اغواکرنے والے کتنی گاڑیوں میں آئے تھے۔ ایکچوائل گاڑیوں کے نمبر واضح نہیں تھے ، کیا ہم ایس ایس پی انویسٹی گیشن کو معطل کردیں، یہ دوسروں کو بچارہے ہیں۔ تفتیش میں چیف جسٹس کا نام آئے تواس سے بھی جاکرپوچھیں اگوپولیس افسرایسانہیں کرسکتے تواستعفیٰ دے دیں۔ ایف آئی اے ایک ہزارانکوائریاں کرسکتی ہے تاہم یہ قانون کے مطابق ہونی چاہیں۔ ایک کمشنر نے کہا کہ چیف جسٹس نے انتخابات کو مینی پولیٹ کیا، کمشنر نے جھوٹ بولا اورسارے میڈیا نے وہ خبر چلائی، دنیا میں تصدیق کے بعد خبر چلائی جاتی ہے، کیا ہم سارے میڈیا چینلز کو نوٹس جاری کریں، بس رینکنگ بڑھ جائیں،ابھی تورینکنگ کی گیم ہے، کسی نے بھی سوال نہیں کیا کہ یہ کیسے ہوا، کسی میڈیا نے نہیں کمشنر سے نہیں پوچھا یہ کیسے ہوا؟ کیادنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جہاں یہ ہورہا ہے ۔جبکہ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ شیخوپورہ کے دوڈاکو اسلام آباد کے صحافیوں پر حملہ کررہے ہیں، زبردست۔ جبکہ جسٹس نعیم اخترافغان نے ریمارکس دیئے ہیں کہ لگتا ہے کہ سارے ادارے مفلوج ہوگئے ہیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اخترافغان پر مشتمل تین رکنی بینچ نے ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو نوٹسز جاری کیے جانے کے حوالہ سے2021میں لئے گئے ازخود نوٹس سمیت دیگر درخواستوں پر سماعت کی۔صدر پریس ایسوسی ایشن آف سپریم کورٹ میاں عقیل افضل کی جانب سے بیرسٹر سید صلاح الدین احمدکے توسط سے دائر درخواست کی بھی سماعت  ہوئی۔ دوران سماعت اٹارنی جنرل بیرسٹر منصو عثمان اعوان،پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ریاضت علی سحر، سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سید علی عمران، بیرسٹر سید صلاح الدین احمد، بیرسٹر جہانگیر خان جدون، آئی اسلام آباد پولیس ڈاکٹر اکبر ناصر خان، ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسلام آباد مسعود احمد ، ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل سائبر کرائم ونگ ایف آئے اوردیگرحکام پیش ہوئے۔ جبکہ صحافی مطیع اللہ جان اور ابصار عالم حیدر بھی پیش ہوئے۔ سماعت کے آغاز پر بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ہماری درخواست اس حوالہ سے ہے کہ ایف آئی اے کی جانب سے صحافیوں کو نوٹسز بھیجے گئے ہیں۔ صلاح الدین نے گزشتہ سماعت کاآرڈر پڑھ کرسنای۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا رپورٹس جمع کروادی گئی ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پولیس نے ابصارعالم، مطیع اللہ جان اوراسد علی طور کے معاملہ پر رپورٹ جمع کروادی ہے، دوملزمان کو پکڑا تھا جن میں حماد سلیمان اورایک اور ملزم شامل ہے ، حماد سلیمان کو شیخوپورہ سے پکڑا تھا جس نے ابصار عالم اور اسد طور پر حملے کا اقرارکیا ہے۔ آئی جی پولیس اسلام آباد نے بتایا کہ حماد سلیمان کو شیخوپورہ سے پکڑا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزم نے کس قسم کااقرارکیا ہے، تفتیشی افسر کدھر ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ رپورٹ ایس ایس پی انویسٹی گیشن نے جمع کروائی ہے، ایس ایس پی کیوں موجود نہیں۔جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا پیش رفت ہوئی، تفتیشی افسر کو عدالت میں موجود ہونا چاہیئے تھا جو عدالت کے سوالوں کے جواب دیں۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ابصارعلم کی نمائندگی کون کررہا ہے۔اس پر عدالت کو بتایا گیا کہ ابصارعالم راستے میں ہیں اوروہ عدالت آرہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ صحافیوں پر حملے سنجیدہ معامل ہے۔ صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ابصارعالم کو نوٹس دے کر بلالینا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم جاننا چاہتے ہیں کہ متاثرہ شخص پولیس تحقیقات سے مطمئن ہے کہ نہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ابصار عالم کیس میں چالان ابھی تک نامکمل ہے۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اسد علی طور پر حملہ کرنے والے تین افرادتھے، اسد علی طور نے کسی کو نامزدنہیں کیا۔ اتارنی جنرل کا کہنا تھا کہ مرزازین ریاض اور شاہ نواز نامی دو ملزمان فرانس میں جنہوں نے ابصار عالم پر حملے کے لئے رقم دی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ رپورٹ قابل اطمیان نہیں،یہ کون لوگ ہیں کچھ توبتائیں۔ کیا اسد طور اورابصار عالم پر حملوں میں ملوث ملزمان ایک ہی ہیں، ان کو کتنی ادائیگی کی گئی ہے اگر یہ ایک ہی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پولیس کی تفتیش قابل رحم ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر میڈیا پر تواتر کے ساتھ حملے ہوں گے توپھر ہم معاملہ دیکھیں گے ، میڈیا پر حملوں کی وجہ سے ازخودنوٹس لیا گیا۔ چیف جسٹس نے سوال کیا کہ بلیک یونیفارم میں کون تھا، کس کایونیفارم تھا۔ چیف جسٹس کاآئی جی پولیس اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کس کابلیک یونیفارم تھا، اتنے نااہل ہیں کہ ویڈیوز موجود ہیں اورجرم کاپتا نہیں لگاسکتے، ریکارڈڈ ویڈیوز ہیں، اگر ملزمان کاپتا نہیں لگاسکتے توعہدہ چھوڑ دیں،کیاآپ ہمارے سامنے درخواست گزار ہیں، اگرریکارڈڈ ویڈیو کا پتا نہیں لگاسکتے توپھر میں خود کواسلام آباد میں غیر محفوظ سمجھتا ہوں، آپ ذمہ داروں کے خلاف کاروائی نہیں کریں گے توپھر ہم کاروائی کریں گے، 2022کی ایف آئی آر ہے، کیا تین صدیاں چاہیں، کیا ریٹائرمنٹ کاانتظار ہے، اس طرح کے جرم کو بھی ٹریس نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیاآپ اس کیس میں تحقیقات سے مطمئنن ہیں، یس، نو، اس کیس پر فوکس کریں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کس قسم کاآئی جی ہے،یہ ناقابل برداشت ہے، ہم اس کو عہدے سے ہٹانے کی سفارش کریں گے، یہ نااہل آئی جی ہے، اتنی گاڑیاں ہیں پھر کسی کو نہیں پکڑسکتے، اتنے ہوشیار ہیں۔ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جواب میرے دفتر کے زریعہ دائر نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ چار سال سے جیوفینسنگ کررہے ہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان نے سوال کیا کہ کیسے متاثرہ شخص پولیس کے ساتھ تعاون کرے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی پر الزام لگارہے ہیں کہ پولیس کے ساتھ تعاون نہیں کررہا، ہم انہیں پوچھ لیں گے کہ کیوں تعاون نہیں کررہے۔ پوراپاکستان آپ کی کارکردگی دیکھ رہا ہے،ہم آئی جی کوسہولت کارنامزد کریں گے، کیا تفتیشی نے کال کی یانوٹس دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ جھوٹا کیس ہے، ایسا نہیں کیوں کہ ویڈیو ریکارڈڈ ہے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ ان ٹریسڈ کی رپورٹ جمع کروکراٹارنی جنرل نے جان چھڑوالی۔ چیف جسٹس کاآئی جی اسلام آباد سے مکاملہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے نوٹس لیا ہے، چیزوں کو سنجیدہ لیں،ہمیں پتا ہے کس نے کیا ہے مگرنام لینے سے ڈرتے ہیں۔ اس پر ڈاکٹر اکبرناصر خان کا کہنا تھا کہ میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ مجھے نہیں پتا کس نے کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کسی صحافی کو گولی ماردی، کسی کے گھر میں داخل ہوکرپٹائی کردی اور کس کو اغوا کر لیا، یہ صحافی اس لئے ہمارے سامنے ہے کہ ریکارڈ ہو گیا، کیا اس دن کی سیف سٹی کیمروںکی ویڈیو ہے یا اس دن کیمرے بند تھے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد علی طور کیوں جیل میں ہیں۔ اس پربیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ان پر سینئر حکومتی آفیشل کی توہین کاالزم کاالزام ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا اسلام آبادپولیس کی طرح پنجاب پولیس بھی مئوثر ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عبدالقیوم صدیقی کہاں ہیں، عامر میر کے بارے میں کیس کو کوئی پتا ہے۔ اس پر جہانگیر جدون نے بتایا کہ عامر میر کودوویگو ڈالے اٹھا کرلے گئے تھے اوران سے موبائل لے لئے گئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عامر میر کے خلاف جرم کی نوعیت کیا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم نے تفصیلی رپورٹ مانگی تھی اورصرف دونمبر دے دیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف آئی کے افسر طارق پرویز کی جانب سے جمع کروائی گئی رپورٹ پر برہمی کااظہار کیا اور کہا کہ اس طرح پاکستان نہیں چلایاجاسکتا، یہ جاہلوں سے بھی بدتر ہیں، کیا یہ پڑھا لکھا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ طارق پرویز کون ہیں، کتنا پڑھا لکھا ہے، پانچ پاس ہے یا فیل ہے، کیوں وہ یہاں موجود نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے کتنے ملازم ہیں۔ اس پر ایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل سائبر کرائم ونگ نے بتایا کہ 6000ملازم ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا ایڈیشنل ڈائریکٹر ایف آئی اے سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ میں سوال کا جواب پوچھ رہاہوں، کیا پنجابی میں سوال پوچھیں۔ اس پر ایڈیشل ڈائریکٹرل جنرل کاکہنا تھا کہ میںجواب سے مطمئن نہیں۔ جسٹس نعیم اخترافغان کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ سارے ادارے مفلوج ہو گئے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ اپنے دفتروں میں صاحب بنے بیٹھے ہیں ، لوگوں کا کام نہیں کرنا، ہم ان سے کام کروائیں گے، پاکستان ان کوکسی وجہ سے پال رہاہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن کے صدر شہزاد شوکت نہیں آئے۔ اس پر سیکرٹری سپریم کورٹ بار علی عمران خان کا کہنا تھا کہ شہزادشوکت کی طبعیت ناساز ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ رپورٹس پرپولیس اورایف آئی اے کوکتنے نمبر دیں گے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ پاسنگ مارکس بھی مل سکتے، یہ فیل ہو گئے ہیں، ہمیں وقت دیں ہم دوبارہ رپورٹس جمع کروائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ مالکان سے کہیں تنخواہ دیں، پاکستان کاٹیکس پیئر نہیں دے گا، تفتیشی کام آئی جی نہیں کرسکتا، ان کا قافلہ چلتا ہے، اسلام آباد سیف سٹی ہے، ان کو کیا ڈر ہے، پتاتوچلے آئی جی آیا ہے، اپنی کارکردگی دکھائیں۔ بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ 25جنوری2024کو صحافی ثمر عباس کو ایف آئی اے کے تفتیشی انیس الرحمان کا نوٹس ملا، نوٹس میں سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف بدنیتی پر مبنی مہم چلانے کاالزام لگایا گیا، پاکستان کے سارے شہروں صحافیوں کو نوٹس بھجوائے گئے، اسی طرح کا نوٹس اسد علی طور کو ملا، اسد طور گیا اوراگلی پیشی پر اسد طور کو گرفتار کر لیا گیا۔ بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا اسد طور کے خلاف پیکا قانون کی دفعات 9، 10اور24کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ چیف جسٹس نے بیرسٹرصلاح الدین کو ہدایت کی کہ وہ یہ دفعات پڑھیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیسے ان دفعات کے تحت جرئم کاارتکاب ہوا۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ ان شقوں کے تحت کوئی جرم کاارتکاب نہیںہوا۔ چیف جسٹس نے ایف آئی اے افسر سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کے پورے ادارے میں کوئی پڑھا لکھا ہے، اگر انگلش سمجھ نہیں آتی تو اُردو میں ترجمہ کروالیں، ساری بات بھی مان لیں تویہ سارے سیکشن کیسے لگتے ہیں، نہ کسی پروگرام کاتذکرہ ہے ، نہ کسی ٹویٹ کااورنہ کسی اورچیز کا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہمارے کندھے پر بندوق رکھ کرچلارہے ہیں، کسی جج یا رجسٹرارسپریم کورٹ نے کوئی شکایت کی، ہم پر یہ مہربانی کیوں کی، ہمارے اوپراحسان کررہے ہیں، عوام میں اس کا براتاثرجاتا ہے، کیوں سُپر ایفیشنٹ بن کر کام کررہے ہیں، اگر کسی جج یا رجسٹرار نے شکایت نہیں کی، ہم سے ایف آئی اے اجازت ہی لے لیتی کیوں ہمارا نام بدنام کررہے ہیں، لوگ یقین کرلیتے ہیں، نہ ایف آئی آر میں تذکرہ ہے،ہمیں ایف آئی اے پر اعتماد ہے لیکن یہ اپنا اعتماد خراب کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے بیرسٹر صلاح الدین سے اسفسار کیا کہ کیاکریں، کیسے آگے چلیں۔ بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کے پاس کوئی دائرہ اختیار نہیں کہ صحافیوں کے خلاف تحقیقات کرے، کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی اور پیکاایکٹ 2016کے سیکشن30کے تحت پہلے ہی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بن گئی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 18جولائی 2023کو پیکا ایکٹ 2016کے سیکشن 30میں ترمیم کردی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ کیا آئی ایس آئی لاء انفورسمنٹ ایجنسی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ انٹیلیجنس ایجنسی ہے اور کسی قانون پر عملدرآمد کااختیار نہیں رکھتی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یاتوقانون میں اس کا تذکرہ ہو۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیسے رول ، ایکٹ پر غالب آسکتا ہے۔ جسٹس عرفان سعاد ت خان کا کہنا تھا کہ اسد طور کے خلاف درج ایف آئی آر میں ججز کے خلاف بدنیتی پر چلائی جانے والی مہم کے حوالہ سے کچھ نہیں لکھا گیا، اٹارنی جنرل اس سوال کا جواب دیں۔ بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ججز کے کندھے پر بندوق چلائی جارہی ہے اوراس سے عدلیہ کوبدنام کیا جارہا ہے۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ ایف آئی اے کو اپنی دکان بند کردینی چاہیئے، پہلے ایف آئی اے کہے کہ ہم اہل نہیں اس کے بعد انٹرپول اور ایم آئی 6کو بھی شامل کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا جے آئی ٹی سیکشن 30کے تحت قائم ہوسکتی ہے، قانون تواجازت ہی نہیں دے رہا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے انٹرپورل سے بھی کہہ سکتی ہے، کون روک رہا ہے،پہلے یہ کہیں کہ ہماری صلاحیت اوراہلیت نہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی میں شامل 6لوگوںمیں باس کون ہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کاکہنا تھا کہ ایڈیشنل ڈی جی سائبر کرائم ونگ ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اِدھر کس کی چلے گی؟ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگر کسی شہری نے جرم بھی کیا ہے تواس کے خلاف قانون کے مطابق ہی کاروائی کی جائے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا پریس ایسوسی ایشن سپریم کورٹ کی درخواست پر ہم نوٹس جاری کرتے ہیں، حکومت بھی تبدیل ہوئی ہے، بہت سی چیزیں تبدیل ہوئی ہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اسد طور کے کیس میں پیکاایکٹ کا سیکشن 20لاگو ہوسکتا ہے۔ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کیا آرڈر چاہتے ہیں یا گریس شوکریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ توقع ہے کہ ایف آئی اے اتارنی جنرل کی معاونت سے قانون کے مطابق کاروائی کرے گی۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میں اس معاملہ میں شامل نہیں ہوگا ، ہمیں صرف میڈیا کے حوالہ سے تشویش ہے۔ اس دوران ایس ایس پی انویسٹی گیشن اسلام آباد مسعود احمد عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس جواب کا کیا مطلب ہے کہ مطیع اللہ جان تفتیش میں کوئی تعاون نہیں کررہے، کیا ایس ایس پی کی جانب سے جھوٹی رپورٹ بنائی گئی ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ نئی رپورٹ جمع کروائی جائے گی ، ہم سب سے سینئر افسر کے خلاف ایکشن لیں گے، ہم ٹاپ سے شروع کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حماد سلیمان کا164کا بیان ہے یا کس قسم کااقرارجرم ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ساری دنیا کے جرائم حماد سلمان پر ڈال دیں، ہم بھی ہیں یہ ڈال دو، شاید وہ لیاقت علی خان کا قتل بھی مان لیتا، کیا پوچھا اس سے۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ حماد سلیمان نے 161کی تحقیقات میں بتایا۔ چیف جسٹس نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن سے پوچھا کہ وہ کتنے سال سے پولیس میں ہیں۔ اس پر ایس ایس پی کاکہنا تھا کہ 13سال سے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سینئر افسر کو کیس میں کوئی دلچسپی نہیں، انہیں توسارا کیس معلوم ہونا چاہیئے تھا وہ جونیئر سے پوچھ رہا ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ کوئی ہوم ورک کرنے کی جگہ نہیں، ہم سب سے بڑے افسر کے خلاف کاروائی کریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ملزمان کس کے کہنے پر صحافیوں کے خلاف حملہ کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ہم آئین کے آرٹیکل 184-3کے تحت عوامی مفاد کامعاملہ ہونے کی وجہ سے صحافیوں کاکیس سن رہے ہیں۔ اس دوران ابصار عالم نے بتایا کہ انہیں ایک نجی ٹی وی کے سینئر اینکر نے بتایا کہ ان پر حملہ کرنے والے کہاں سے آئے تھے اورادائیگی کہاں ہوئی تھی۔ اس پر چیف جسٹس نے ابصار عالم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالہ سے آپ کو ثبوت بھی فراہم کرنا ہوں گے وگرنہ آپ اپنا کیس خراب کررہے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل کومخاطب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم مکمل رپورٹ چاہتے ہیں کہ ماسٹر مائنڈ کون ہے، ماسٹر مائنڈ کے خلاف کیوں نہیں جارہے، کیا مطیع اللہ جان کا معاملہ بھی حماد سلیمان پر ڈال دیں۔ چیف جسٹس نے ایس ایس پی انویسٹی گیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے ملزم سے پوچھا کہ مطیع اللہ کو بھی آپ نے اٹھایا تھا، شاید وہ یہ بھی مان لے۔ چیف جسٹس کا کہناتھا کہ یہ ویگو سستی گاڑی ہوتی ہے، کتنی گاڑیوں میں آئے تھے۔ اس پر ایس ایس پی انویسٹی گیشن کا کہنا تھا کہ ایک گاڑی میں آئے تھے۔ مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ تین گاڑیاں، ایک ایمبولینس اورایک کاربھی تھی، جس راستے سے آئے تھے سی سی ٹی وی کیمرے بھی اتارلئے تھے۔ چیف جسٹس نے ای ایس پی انویسٹی گیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کتنے سال اورنوکری میںہیں، یاکوئی اورکام کرنا چاہتے ہیں، ہم آپ کواپنا کام کرنے پر مجبورکریں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کیا یہ کسی سے ڈرتے ہیں یاکسی کو بچارہے ہیں۔ مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ دن 11بجے واقعہ پیش آیا تھا، گاڑیوں کے نمبر بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے ایس ایس پی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا رجسٹریشن حکام سے گاڑیوں کے نمبر معلوم کئے۔ اس پر ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ ایکچوائلی نمبر واضح نہیں تھے۔ چیف جسٹس نے برہمی کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ہم ایس ایس پی کو معطل کریںاوران کا معاملہ ڈسپلنیر کمیٹی کو بھیجیں، یہ دوسروں کو بچارہاہے۔ اس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دوروز کا وقت دے دیں، پراپر رپورٹ جمع کروادے گا۔ مطیع اللہ جان نے بتایا کہ صحافی شاہد میتلا نے جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ سے ملاقات کے بعد انٹرویوز دیئے  جس میں میرے اغوا اورابصارعالم پر حملے کے حوالہ سے بھی بات کی، شاہد میتلا سے بھی تحقیقات ہوسکتی ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ تفتیش میں اگر چیف جسٹس آئے اس سے بھی جاکرتحقیقات کریں یااستعفیٰ دے دیں۔ ابصارعالم کا کہنا تھا کہ جنرل(ر) باجوہ اورجنرل(ر)فیض حمید کو بھی بلاکرپوچھا جائے۔ جسٹس عرفان سعادت خان کا کہنا تھا کہ ساری چیزیں کئے بغیر رپورٹ کیسے جمع کروادی۔ چیف جسٹس نے مطیع اللہ جان سے سوال کیا کہ اگر پولیس بلائے توبیان ریکارڈ کروانے جائیں گے۔ اس پر مطیع اللہ جان کا کہنا تھا کہ چار سال میں پہلی مرتبہ بلائیں گے تو کیوں نہیںجائیں گے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل حکومت کے ساتھ اخلاف کرسکتے ہیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا قانون برا نہیں تاہم اس کاغلط استعمال ہوا، ایف آئی اے ایک ہزارنوٹس جاری کرسکتی ہے تاہم یہ قانون کے مطابق ہونے چاہیں۔ بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ اگرانکوائریز اورجے آئی ٹی کو کالعدم قراردے دیا جائے توہم مطئمن ہوں گے۔ بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ 14مارچ کو اسد علی طور کی درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر ہے۔ چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ضمانت کی تاریخ کاانتظار نہیں کرنا چاہیئے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اگرادارے کی ساکھ ختم ہوتی ہے تویہ ہم سب کو متاثر کرے گی۔ چیف جسٹس نے سماعت کاحکم لکھواتے ہوئے کہا کہ 29اور30جنوری کی سماعت کے حکم کے تحت پولیس اورایف آئی اے نے اپنی رپورٹس جمع کروائیں۔ ہم رپورٹس سے مطمئن نہیں ، اٹارنی جنرل بھی مطمئن نہیں اورانہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ جامع رپورٹس آئندہ سماعت سے قبل جمع کروائی جائیں گی۔ جو صحافی دوران سماعت موجود نہیں تھے ان سے بیرسٹر صلاح الدین احمد رابطہ کر کے ہدایات لیں گے۔ مطیع اللہ جان کو اگر پولیس بلائے گی تووہ بیان ریکارڈ کروائیں گے۔ عدالت نے قراردیا میڈیا کی آزادی کودبانے کے معاملہ کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ پولیس اورایف آئی اے تازہ رپورٹس جمع کروائیں اوراگر صحافیوں پر حملوں کے حوالہ سے تحقیقات مکمل نہ ہوئیں تو پھر ہم قراردیں گے کہ پولیس اورایف آئی اے سہولت کاری کررہی ہیں۔ صحافیوں کو 25جنوری 2024کونوٹسز جاری کئے گئے، نوٹس سے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ ، رجسٹرار اورججز کی شکایت پر یہ کیا گیا ہے جو کہ درست نہیں، ہم نہ حکومت ہیں اور نہ ہی سول سرونٹس۔ پریس ایسوسی ایشن کی درخواست پر جواب جمع کروایا جائے۔ ہوسکتاہے کہ آج ہی اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، اسدعلی طور کامعاملہ دیکھیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اداروں کو چلنے دیں۔ عدالت نے درخواستوں پر مزید سماعت 25مارچ تک ملتوی کردی۔ ZS

#/S