طالبان کے نائب وزیراعظم ملا برادر اور خلیل الرحمان حقانی کے درمیان تلخ کلامی
ملا عبدالغنی برادر نے نئی حکومت کے ڈھانچے میں خواتین اور دیگر قومیتوں کی عدم شمولیت پر سوال اٹھایا
واقعے کے بعد ملا عبدالغنی برادرناراض ہو کر قندھار چلے گئے،بی بی سی کا طالبان ذرائع کے حوالے سے دعویٰ
کابل(ویب نیوز)افغانستان کے حکومتی امور سنبھالنے کے چند روز بعد ہی صدارتی محل میں طالبان کے دو گروہوں کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ۔ بی بی سی کی پشتو سروس نے دعوی کیا ہے کہ چند روز قبل جمعرات یا جمعہ کی رات صدارتی محل میں نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر اور خلیل الرحمان حقانی کے درمیان زبانی تکرار ہوئی تھی۔رپورٹ کے مطابق طالبان کے ذرائع نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دونوں رہنماوں کے درمیان تلخ کلامی پر ان کے حامیوں میں بھی تکرار ہوئی۔رپورٹ کے مطابق اس واقعے کے بعد ملا عبدالغنی برادرناراض ہو کر قندھار چلے گئے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر نے نئی حکومت کی تشکیل اور طالبان کی نگران کابینہ پر اختلاف کیا۔طالبان عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر نے نئی حکومت کے ڈھانچے میں خواتین اور دیگر قومیتوں کی عدم شمولیت پر سوال اٹھایا جس پر کابینہ کے ایک اور رکن خلیل الرحمان حقانی سے بحث شروع ہوگئی۔صدارتی محل میں ہونے والی اس بحث و تکرار پر دونوں رہنماوں کے حامی ارکان ایک دوسرے سے الجھ پڑے اور بات تلخ کلامی تک جا پہنچی۔ ملا عبدالغنی کے حامیوں کا کہنا تھا کہ امریکا سے مذاکرات ہم نے کیئے تھے اور عالمی برادری سے ایک متنوع حکومت کی تشکیل کا وعدہ بھی کیا تھا جس کی وجہ سے ہمیں افغانستان میں اتنی آسانی سے کامیابیاں نصیب ہوئی تھیں۔دوسری جانب حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے وزیر برائے پناہ گزین خلیل الرحمان حقانی اور ان کے حامی ارکان کا موقف تھا کی غیر ملکی فوجی ان کی کارروائیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹیں اور امریکا بھی اسی وجہ سے مذاکرات پر راضی ہوا تھا۔اس تلخ کلامی کے بعد سے نائب وزیراعظم ملا عبدالغنی برادر قندھار چلے گئے تھے جہاں وہ ممکنہ طور پر امیر طالبان کے سامنے یہ سارا معاملہ رکھیں گے۔اس سارے میں معاملے میں سنسنی اس وقت پھیلی جب افغانستان میں واٹس ایپ گروپس پر صدارتی محل میں کابینہ ارکان کے درمیان تلخ کلامی کے نتیجے میں ہونے والی فائرنگ میں ملا عبدالغنی برادر کی ہلاکت کی خبریں گردش کر رہی تھیں جس پر طالبان کو تردیدی بیان جاری کرنا پڑا تاہم ملا عبدالغنی تاحال منظر عام پر نہیں آئے۔واضح رہے کہ طالبان نے15 اگست کو افغان دارالحکومت کابل کا کنٹرول سنبھالا تھا اور گزشتہ ہفتے ملا حسن اخوند کی قیادت میں اپنی نگران حکومت اور کابینہ کا اعلان کیا تھا۔کابینہ میں تقریبا تمام نگران وزرا ء طالبان رہنما یا گروپ کے قریبی ساتھی ہیں۔ لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ یہ ایک عبوری حکومت ہے اور اس کا مقصد صرف نظام کو چلانا ہے۔طالبان نے یہ نہیں بتایا کہ نگران حکومت کب تک اقتدار میں رہے گی۔واضح رہے کہ دنیا کے کسی بھی ملک نے اب تک طالبان کی نگران حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔