شیم آن سندھ حکومت ، پورا کراچی گند سے بھرا ہے،حکمران طبقے کو کوئی پرواہ ہی نہیں،چیف جسٹس گلزار احمد
سندھ حکومت کی طرح وفاقی حکومت کا بھی یہی حال ہے، سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، سیاسی جھگڑے اپنی جگہ مگر لوگوں کے کام تو کریں ،ریمارکس
جب گاڑیاں خریدنی ہوتی ہیں تو پیسے آجاتے ہیں، اگر زلزلہ یا سیلاب آجائے تو پھر کیا کریں گے، جسٹس اعجاز الاحسن
کراچی (ویب ڈیسک)
سپریم کورٹ نے کراچی میں نالوں کے اطراف تجاوزات کے خاتمے سے متعلق آپریشن کے متاثرین کی بحالی کے لئے سندھ حکومت کو ایک سال کا وقت دے دیا،چیف جسٹس آف پاکستان گلزار احمد خان نے پر سندھ حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ”شیم آن سندھ حکومت ” حکمران طبقے کو کوئی پرواہ ہی نہیں، پورا کراچی گند سے بھرا ہے، گڑ ابل رہے ہیں، تھوڑی سے بارش میں شہر ڈوب جاتا ہے، سندھ حکومت کی طرح وفاقی حکومت کا بھی یہی حال ہے، سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، سیاسی جھگڑے اپنی جگہ مگر لوگوں کے کام تو کریں ۔بدھ کوسپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزار احمدخان کی سربراہی میں 3رکنی بینچ نے گجر نالہ تجاوزات آپریشن، اورنگی ٹائون اور محمود آباد کے نالوں کے اطراف سے تجاوزات کے خاتمے اور متاثرین کی بحالی سے متعلق مقدمات پر سماعت کی۔ایڈوکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے عدالت کو بتایا کہ 258 ایکٹر اراضی پر متاثرین کو متبادل زمین مختص کردی ہے جہاں 6 ہزار سے زائد گھر بنائے جائیں گے، سندھ حکومت کے پاس بجٹ کی کمی ہے، بحریہ ٹائون واجبات سے رقم ملے گی تو ہم منصوبے پر کام شروع کردیں گے، بحریہ ٹائون کے واجبات سندھ حکومت ہی کے ہیں، 60 ارب روپے اگر سپریم کورٹ ریلیز کردے تو ہم کام شروع کر دیتے ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ان پیسوں پر امید لگا لی، آپ اس معاملے کو مشروط کر رہے ہیں، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی، اگر بحریہ ٹائون کے پیسے نہ آتے تو پھر کیا کرتے، ابھی پیسے آئے نہیں، سارا جہان پیسے لینے آگیا، جب گاڑیاں خریدنی ہوتی ہیں تو پیسے آجاتے ہیں، اگر زلزلہ یا سیلاب آجائے تو پھر کیا کریں گے، اگر کوئی آفت جائے تو کیا ایک سال تک بجٹ کا انتظار کریں گے۔ سندھ حکومت کا کتنے ارب کا بجٹ ہے، آپ کی ترجیحات اصل میں کچھ اور ہیں۔ کھربوں روپے کے بجٹ سے آپ کے پاس 10 ارب نہیں،جن کے پاس پیسہ نہیں ہوتا وہ شہر پر شہر آباد کرلیتے ہیں۔ چیف جسٹس گلزار احمدنے ریمارکس دیئے کہ سندھ حکومت میں کچھ نہیں ہو رہا، سندھ میں سردرد صورتحال ہے، ورلڈ بینک کے کتنے منصوبے ہیں مگر کچھ نہیں ہو رہا، وزرا ء اور باقی سب کے لیے فنڈز ہیں ، باقی سارے امور چلا رہے ہیں، صرف عوام کے لیے پیسے نہیں، یہ سپریم کورٹ کو طے کرنا ہے کہ پیسے کہاں خرچ کرنا ہیں، جب تک متاثرین کو گھر نہیں دیتے، وزیراعلی اور گورنر ہائوس الاٹ کر دیتے ہیں، جنہوں نے یہ زمینیں الاٹ کیں، ان کے خلاف کیا ایکشن لیا۔چیف جسٹس کے استفسار پر سلمان طالب الدین نے کہا کہ یہ تو چالیس سال پرانا مسئلہ ہے، جس پر چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ آپ انتہائی غیر ذمہ دارانہ بیان دے رہے ہیں، یہ کوئی طریقہ نہیں، شیم آن سندھ حکومت، جس بلڈنگ کو اٹھائو اس کا برا حال ہے، سٹرکیں ٹوٹیں، بچے مریں، کچھ بھی ہو، یہ کچھ نہیں کرنے والے، یہ حال سندھ حکومت کا اور یہی حال وفاقی حکومت کا بھی ہے، سب پیسہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں، سیاسی جھگڑے اپنی جگہ مگر لوگوں کے کام تو کریں۔ پورا کراچی گند میں بھرا ہوا ہے، گٹر ابل رہے ہیں، تھوڑی سے بارش میں شہر ڈوب جاتا ہے، کیا یہ کراچی شہر ہے، غیر قانونی قبضے اور سٹرکیں بدحال، کچھ نہیں کراچی میں، یہ تو گاربیج دیکھائی دیتا ہے، شہر اس طرح چلایا جاتا ہے، کراچی میں ایک انچ کا بھی کام نہیں ہوا ، یہ ہے سندھ حکومت، اور پھر کہتے ہیں پیسے نہیں۔سپریم کورٹ نے سندھ حکومت کو متاثرین کی بحالی کے لیے ایک سال کا وقت دیتے ہوئے عبوری فیصلے میں کہا کہ سندھ حکومت کہتی ہے ہمارے پاس بحالی کے پیسے نہیں، متاثرین کی بحالی سندھ حکومت کا کام ہے، سندھ حکومت دستیاب وسائل سے بحالی کا کام کرے، وزیراعلی سندھ ذاتی طور اس فیصلے پر عمل درآمد یقینی بنائیں، وہ متاثرین بحالی کی رقم کا بندوبست کریں۔