کراچی (ویب ڈیسک)
منگل کو کاروبار کے دوران روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ جاری رہا اور دن کا اختتام اوپن مارکیٹ میں ریکارڈ 176 روپے 30 پیسے بلند ترین سطح پر پہنچ گیا۔ انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی اڑان جاری ہے اور ڈالر ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 175 روپے 30 پیسے کی سطح پر بند ہوا ہے۔ گزشتہ روز انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 174 روپے 55 پیسے پر بند ہوا تھا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 176 روپے کی سطح کو بھی عبور کرگیا اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر 176 روپے 20 پیسے میں خریدا گیا اور 176 روپے 30 پیسے میں فروخت ہوا جو ملکی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔کرنسی ڈیلرز کا کہنا تھا کہ جولائی سے اب تک انٹر بینک مارکیٹ میں ڈالر 11 فیصد مہنگا ہوچکا ہے اور جنوری سے اب تک اس کی قیمت 22 فیصد بڑھ چکی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف)سے معاہدہ طے پانے تک ہم روپے پر دبا جاری دیکھ رہے ہیں۔اس سے قبل مالیاتی ڈیٹا اور تجزیاتی پورٹل میٹس گلوبل کی رپورٹ کے مطابق منگل کو دوپہر تقریبا ساڑھے 12 بجے ڈالر کی تجارت 175 روپے میں ہو رہی تھی جو گزشتہ روز 174 روپے 43 پیسے کی سطح پر بند ہوا تھا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ ڈالر کی طلب زیادہ ہونے کے بعد روپے کی قدر میں 37 پیسے کی کمی ہوئی۔فاریکس ایسوسی ایشن کے چیئرمین ملک بوستان نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف)کے ساتھ مذاکرات کے نتائج میں تاخیر اور روپے کی قدر میں کمی کی شرائط کی افواہوں پر کرنسی مارکیٹ میں ہلچل ہے اور انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 175 روپے کی ریکارڈ سطح پر بھی عبور کر گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بائیومیٹرک کی شرط کے بعد اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی طلب نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ بائیو میٹرک کے بھی وہ انتظامات نہیں کیے جاسکے ہیں جو نادرا کے تعاون سے ہونے تھے۔ملک بوستان نے کہا کہ جولائی سے اب تک روپے کی قدر 11 فیصد تک گر چکی ہے، انٹر بینک مارکیٹ میں ٹہرا اور آئی ایم ایف سے قرض پروگرام کی منظوری تک روپے پر دبا جاری رہ سکتا ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ کئی روز سے ڈالر ہر گزرتے دن نئی سطح کو چھو رہا ہے جس کی بڑی وجہ درآمدات میں اضافہ اور ڈالر کی افغانستان میں اسمگلنگ کو قرار دیا جاتا ہے۔اسٹیٹ بینک نے 7 اکتوبر کے ایک اعلامیے کے ذریعے ایکسچینج کمپنیوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ 500 ڈالر اور اس سے زائد کی بیرونی ترسیلات زر کے برابر تمام غیر ملکی کرنسی فروخت کے لین دین کے لیے 22 اکتوبر سے لازمی بائیو میٹرک تصدیق کریں۔اسٹیٹ بینک نے یہ فیصلہ بالخصوص افغانستان میں ڈالر کے اخراج کو روکنے کے لیے کیا ہے جس کی وجہ سے طلب میں تیزی سے اضافہ دیکھا گیا جس نے اوپن مارکیٹ میں شرح تبادلہ کو غیر مستحکم کردیا۔اس کے علاوہ گزشتہ دنوں میڈیا رپورٹس بھی سامنے آئیں جس میں کہا گیا کہ افغانستان میں حکومت کی تبدیلی کے بعد لاکھوں ڈالرز، کابل اسمگل کیے جارہے ہیں۔