یوکرین پر روسی فوج کے حملے تین ہفتے بعد بھی جاری، ماریوپول نوے فیصد تک تباہ

مختلف شہروں میں لڑائی جاری جبکہ روس پر نئی پابندیاں

امریکی ایوان نمائندگان میں روس اور بیلاروس سے تجارتی تعلقات معطل کرنے کا بل منظور

اب تک 30 لاکھ سے زائد افراد یوکرین سے نقل مکانی کر چکے ہیں،اقوام متحدہ

 نیٹو کے رکن ملک چیک ری پبلک نے مزید یوکرائنی مہاجرین کو لینے سے انکار کر دیا

کیف ،واشنگٹن  (ویب ڈیسک)

یوکرین پر روسی فوج کے حملے تین ہفتے بعد بھی جاری ہیں۔ ماریوپول نوے فیصد تک تباہ ہو گیا۔ اقوام متحدہ کے مطابق اب تک 30 لاکھ سے زائد افراد یوکرین سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔ نیٹو کے رکن ملک چیک ری پبلک نے مزید یوکرائنی مہاجرین کو لینے سے انکار کر دیا۔ چیک وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اب تک 2 لاکھ 70 ہزار یوکرینی چیک ریپبلک آچکے ہیں۔ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے ہم مزید مہاجرین کو نہیں سنبھال سکتے۔یوکرین پر روسی حملہ اب چوتھے ہفتے میں ہے اور ملک کے مختلف شہروں سے شدید لڑائی کی اطلاعات مل رہی ہیں۔ جمعے کی صبح بھی سائرن بجنے کی آوازیں سنی گئیں جو میزائل یا پھر فضائی حملے سے قبل عام شہریوں کو متنبہ کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔تازہ اطلاعات کے مطابق لیوف شہر میں صبح ہی ایک زور دار دھماکہ ہوا جس کے بعد شہر پر دھوئیں کے گہرے بادل دیکھے گئے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق شہر کے ایئر پورٹ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ مقامی حکام نے بھی دھماکے کے بعد ایک الرٹ جاری کیا۔اس دوران شمالی شہر چرنیہیو کے علاقائی گورنر کے مطابق بدھ سے اب تک روسی افواج کے ہاتھوں مبینہ طور پر 53 شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔ادھر یوکرین کی فوج کا کہنا ہے کہ اسے نہیں لگتا کہ ”مستقبل قریب” میں دارالحکومت کیف پر روس کی زمینی کارروائی ”ممکن” ہے۔ اس کے مطابق اس کی وجہ یہ ہے کہ روس کے پاس تجربہ کار کمانڈروں کی کمی ہے اور بھاری جانی نقصان سے روسی افواج میں حوصلے کی بھی کمی آئی  ہے۔یوکرین کے فوجی حکام کے مطابق روس اپنے نقصانات کی بھر پائی کرائے کے شامی فوجیوں سے پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس سلسلے میں وہ پہلے ہی 1,000 رضاکاروں کو بھرتی کر چکا ہے۔آسٹریلیا اور جاپان نے جمعے کے روز روس کے افراد، بینکوں اور سرکاری اداروں پر پابندیاں لگا کر روس پر دباؤ بڑھانے کی مزید کوشش کی ہے۔ کینبرا نے ماسکو کی وزارت خزانہ پر پابندیاں عائد کرتے ہوئے روس کے مرکزی بینک سمیت 11 بینکوں اور سرکاری اداروں کو اس میں شامل کیا ہے۔آسٹریلوی وزیر خارجہ ماریس پائنے نے ایک بیان میں کہا کہ روس کے مرکزی بینک کو شامل کر کے آسٹریلیا نے اب روس کے خود مختار قرضوں کو جاری کرنے اور اس کا انتظام کرنے کے ذمہ داری سنبھالنے والے روس کے تمام حکومتی اداروں کو نشانہ بنایا ہے۔ دریں اثنا جاپان نے بھی 15 روسی شخصیات اور اس کے9 اداروں کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔ اس میں دفاعی اور سرکاری حکام کے ساتھ ساتھ اسلحہ اور دوہرے استعمال کی ٹیکنالوجی برآمد کرنے والی کمپنیوں پر پابندی بھی شامل ہیں۔ان پابندیوں میں اثاثوں کو منجمد کرنا بھی شامل ہے۔ 24  فروری کو یوکرین پر روسی حملے کے بعد ٹوکیو کی جانب سے ان نئے اقدامات کا اعلان ہوا ہے۔ادھر یورپی یونین نے کہا کہ یوکرین میں ممکنہ ”جنگی جرائم” کی چھان بین کی جائے گی اور جو افراد اس میں ملوث پائے گئے ان کے خلاف مقدمہ بھی چلایا جائے گا۔ معروف شہر ماریوپول تھیٹر میں زندہ بچ جانے والوں کی تلاش اب بھی جاری ہے، جس پر بدھ کو بمباری کی گئی تھی۔یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے جرمن پارلیمان بنڈس ٹاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”جنگ روکنے میں مددکافی تاخیر سے آئی۔” انہوں نے روس کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے حوالے سے جرمن حکومت پر بھی تنقید کی۔روس اور یوکرین کے درمیان دو طرفہ بات چیت بھی جاری ہے تاہم اس حوالے سے کسی بھی فریق نے عوامی سطح پر کچھ بھی نہیں کہا۔اس دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روسی حملے کے بعد سے یوکرین کی صورت حال پر پانچویں بریفنگ کا انعقاد ہونے والا ہے۔ روس نے یوکرین میں امداد تک رسائی اور شہریوں کے تحفظ کے لیے ایک مسودہ پیش کیا تھا جس پر جمعے کو ووٹنگ ہونی تھی۔ تاہم مغربی طاقتوں کی جانب سے اعتراض کے بعد روس نے اس پر جمعے کو ووٹنگ نہ کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔خیال ہے کہ روس اس مسودے میں بعض تبدیلیوں پر غور کر رہا ہے،ادھر امریکی ایوان نمائندگان نے روس اور بیلاروس سے تجارتی تعلقات معطل کرنے کا بل منظور کر لیا۔ بل کے حق میں 424 جبکہ مخالفت میں صرف 8 ووٹ پڑے۔چینی وزیرتجارت کا کہنا ہے کہ ان کا ملک روس کے ساتھ اپنی تجارت جاری رکھے گا۔ چینی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ سستا تیل خریدنے کیلئے بھارت کی بھی روس کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان ساڑھے تین بلین بیرل خام تیل کی خریدار کا معاہدہ جلد ہو سکتا ہے۔دوسری طرف روسی صدر ولادی میرپیوٹن نے اعتراف کیا ہے کہ پابندیوں سے روسی معیشت کو نقصان پہنچا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اب ڈرنے کا وقت چلا گیا، پابندیوں کے بعد نئے تجارتی مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ترک صدر نے روس اور یوکرین کے درمیان ایک بار پھر ثالثی کی پیشکش کر دی۔ پیوٹن سے ٹیلیفونک گفتگو میں رجب طیب اردگان کا کہنا تھا کہ وہ ترکی میں روسی اور یوکرینی صدور کی ملاقات کرانے کیلئے تیار ہیں جبکہ یوکرینی صدارتی ترجمان کا کہنا ہے کہ روس کے ساتھ امن معاہدے کیلئے مزید کچھ دن لگ سکتے ہیں۔