اگر قیمتیں ٹھیک رہیں تو روس سے پاکستان کو تیل کی رسد جاری رہے گی ،روسی سفیر

پاکستان اوروس کے درمیان باہمی تجارت کا حجم70کروڑ ڈالرز سالانہ ہے، ہمیں اس کو مزید بڑھانا ہے

توقع رکھتا ہوں کہ روسی صدر دلادیمر پوتن جلد ازجلد پاکستان کا دورہ کریں گے تاہم دورے کی تاریخ دینا میرا کام نہیں

افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ عالمی سطح پر ہونا چاہیے،روس اس حوالہ سے کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں کرے گا

دنیلا گینچ کا پاک روس تعلقات اورپیش قدمی کا راستہ کے عنوان سے منعقدہ مکالمے سے خطاب

اسلام آباد( ویب  نیوز)

پاکستان میں متعین روسی سفیر دنیلا گینچ نے کہا ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں ٹھیک رہیں تو روس سے پاکستان کو تیل کی رسد جاری رہے گی ۔توقع رکھتا ہوں کہ روسی صدر دلادیمر پوتن جلد ازجلد پاکستان کا دورہ کریں گے تاہم دورے کی تاریخ دینا میرا کام نہیں، میں بطور سفیر اپنے صدرسے نہیں پوچھ سکتا کہ وہ کب پاکستان کے دورے پر آئیں گے۔روس نے اسلاموفوبیا کے خلاف پاکستان کی جانب سے عالمی دن منانے کے فیصلے کی حمایت کی تھی،ہم کسی بھی مذہب کی توہین کوجرم سمجھتے ہیںاور یہ بیہودہ کام ہے،آزادی اظہار راے کے نام پر کسی مذہب کے مقدسات کی توہین کا کوئی جواز نہیں۔ اس وقت پاکستان اوروس کے درمیان باہمی تجارت کا حجم70کروڑ ڈالرز سالانہ ہے، ہمیں اس کو مزید بڑھانا ہے جس کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے، ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے او رہم بہت کچھ کرسکتے ہیں۔جوہری جنگ کا خطرہ تب ہو گا جب روس کی سالمیت کو خطرہ پیدا ہو گا،ابھی تک روس یوکرین جنگ کے تناظر میں ایسی صورتحال موجود نہیں جوہری جنگ تب شروع ہونے کا خدشہ ہے جب نیٹو براہ راست روس پر حملہ کردے، روس میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے حوالہ سے ایک میکنزم موجود ہے کہ یہ اسی وقت استعمال ہوسکتے ہیں جب روس کی سالمیت کو براہ راسست خطرہ ہو۔اگر یوکرین کے تمام افراد بھی جنگ کے دوران ہلاک ہوجائیں تب بھی یوکرین روس کے خلاف جنگ نہیں جیت سکتا، یوکرین کی آباد ی روس کے مقابلہ میں بہت کم ہے۔ جو کچھ بھی ہو جائے یوکرین کے ساتھ جنگ میں روس ہی فاتح ہو گا،روس یوکرین جنگ کا نتیجہ کیا ہو گااس حوالے  سے امریکہ کو بھی علم نہیں۔ یوکرین روس جنگ کے نتیجہ میں یورپین یونین کے زیادہ متاثر ہونے کا خطر ہے کیونکہ پہلے وہ روس سے سستی گیس خرید رہے تھے اب امریکہ انہیں مہنگی گیس فروخت کررہا ہے۔ اگر ہم بھارت امریکہ تعلقات کی بات کریں تو کیا کر سکتے ہیںتاہم میں یہ یقینی طور پر کہہ سکتا ہوں کہ ہم امریکہ سے بڑھ کر بہت پیشکش کر سکتے ہیںبھار ت کسی کی جیب میں نہیں بلکہ بھارت ، بھارت کی جیب میں ہے۔ افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے کا فیصلہ عالمی سطح پر ہونا چاہیے،روس اس حوالہ سے کوئی یکطرفہ فیصلہ نہیں کرے گا۔ان خیالات کااظہار روسی سفیر دنیلا گینچ نے اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ(IPRI) میں پاک روس تعلقات اورپیش قدمی کا راستہ کے عنوان سے منعقدہ مکالمے سے خطاب اور بعدازاں شرکاء کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے کیا۔ دنیلا گینچ کا کہنا تھا کہ سویت دور میں ہم نے پاکستان اور بھارت سے تعلقات علیحدہ علیحدہ رکھے ،پاکستان اور روس کے مابین بہت سی اخلاقی قدریں مشترک ہیں،یورپ حقوق ہم جنس پرستی میں پاگل ہو رہا ہے تا ہم پاکستان اور روس اس پاگل پن کے مخالف ہیں،پاکستان کو روس سے مالی امداد کم ملتی ہے تاہم محبت روس کے لیے زیادہ ہے افغان جنگ کے دوران ہمارے جارح ہونے کے باوجود پاکستانی عوام نیوٹرل تھے اس وقت ہماری باہمی تجارت 700 ملین ڈالرز سالانہ ہے، ہمیں اس کو مزہد بڑھانا ہے جس کہ گنجائش موجود ہے ،ہم دونوں ممالک عالمی تنظیموں اور فورمز پر رابطہ میں ہوتے ہیں،اپریل 1999 ء میںمیاں محمد نواز شریف،2002 ء میںجنرل (ر)پرویزمشرف،2011میں سابق صدر آصف علی زرداری اور پھرفروری2022میں عمران خان نے روس کا دورہ کیا، یہ عمران خان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ 24فروری کو روس میں موجود دتھے۔ رواں برس پاکستان اور روس کے وزرائے خارجہ کے درمیان 3 مرتنہ رابطہ ہو۔دنیلا گینچ نے کہا کہ ہم پاکستان کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو تسلیم کرتے ہیں،پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 80 ہزارسے زائد جانوں کی قربانیاں دیںجبکہ پاکستان نے مالی طور پر 115 ارب ڈالرزکا نقصان برداشت کیا۔ پاک روس فوجی اور انسداد دہشت گردی کا تعاون جاری ہے دروزبا مشقیں اس کی اہم مثال ہیںہم ایک خطرناک دنیا سے گزر رہے پیں۔دنیلا گینچ نے کہا کہ اس وقت بہت سے نیٹو اراکین و مغربی ممالک تمام ہتھیار یوکرین کو دے رہے ہیںاگر انہیں روس کے حملے یا جارحیت کا خوف ہوتا تو وہ ایسا نہ کرتے ،اقتصادی لحاظ سے ہم نیٹو کے مساوی نہیں ہیںسویت یونین کے خاتمے کے بعد عدم توسیع کے اعلان کے باوجود نیٹو نے 5 مرتبہ روس کے خلاف توسیع کی ،مہم جوئی کی۔ہم یوکرین کو نیٹو کا حصہ نہیں دیکھنا چاہتے یہ بالکل واضح اور ٹھوس موقف ہے اگر عالمی قوانین کودیکھا جاے تو ہر ریاست کو اپنے دفاع کا حق ہے، نیٹو کے اسلحہ کی روس کے گرد موجودگی روس کے لیے خطرہ ہے یہ ماضی میں کیوبا میں سویت میزائلوں کی تنصیب جیسا معاملہ ہی ہے ،ہم پڑوسی ملک میں جارحانہ سرگرمیوں کا اپنے لیے خطرہ سمجھتے ہیں،میرا نہیں خیال کہ یوکرین جنگ کے باعث امریکہ کو مالی مشکلات پیش آئیں گی، امریکہ ایک بڑی معاشی طاقت ہے،یورپ زیادہ کمزور ہے عالمی بنک کے اعداد و شمار کے مطابق روس جرمنی سے اقتصادی طورپر زیادہ مضبوط ہے روس عسکری لحاظ سے سپر پاور ہے تاہم اقتصادی لحاظ سے ترقی پذیر ہے۔ مجھے اس سے فرق نہیں پڑتا کہ یوکرین جنگ کے یورپ پر کیا اثرات ہوں گے مجھے اپنے ملک ،اپنے روس سے مطلب ہے، عالمی لیوادا سینٹر تھنک ٹینک کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن ابھی بھی 80 فیصد سے زائد روسیوں کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔ اگر تیل کی قیمتیں ٹھیک رہیں تو روس سے پاکستان کو تیل کی رسد جاری رہے گی ۔روس بحر اسود میں گندم کے حوالے سے معاہدے پر عملدرآمد کا مطالبہ کرتا ہے ہم نے ایک برس اس معاہدے پر اپنا مکمل عملدرآمد کیا،اگر یورپ اپنی شرائط مکمل کرتا تو یہ بہتر ہوتااگر دوسرا فریق اپنی شرائط پوری کرتا تو یہ نوبت نہ آتی مخالف فریق اپنے وعدے پورے کرنے کی بجاے میٹھی باتیں کرتا رہا ،پاکستان کو تیل کی برآمد پر معاملات سے بے خبر ہوںکیونکہ یہ حساس معاملہ ہے اور روس پابندیوں سے گزر رہا ہے پاکستانی میڈیا سے علم ہوا کہ یہ قیمتوں کا معاملہ ہے، امید ہے ہم مشترکہ نکات دیکھ کر چیزوں کو معمول پر لے آئیں گے، ہم مزید کمیونسٹ ریاست نہیں رہے بلکہ مارکیٹ بیسڈ معیشت ہیں۔دنیلا گینچ نے کہا کہ ہم سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی عزت کرتے ہیں،میری ذاتی رائے کہ وہ ایک ایماندار باحوصلہ آدمی ہیں اور وہ پاکستان میں اوربیرون ملک ایک لیجنڈ کے طور پر جانے جاتے ہیں جن کی کپتانی میں پاکستان نے 1992کاکرکٹ ورلڈ کپ جیتا،تاہم، ہم پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے بطور غیر ملکی میر احق نہیں کہ میں آپ کے معاملات میں بات کروں۔ روس کے بھارت اور روس کے پاکستان سے تعلقات پر ہم سیکھ رہے ہیںیہ ایک صبر آزما مگر تکلیف دہ سبق ہے، بھارت سے ہماری شراکت داری زیادہ ہونے کی وجہ مشترکہ منصوبوں کی ایک بڑی تعداد ہے پاکستان کے حوالے سے ہمیں ایک آزاد مالی ادائیگیوں کے نظام کی ضرورت ہے، پاکستان اس وقت ٹرانزٹ روٹس پر کام کر رہا ہے چاہے اس کو سی پیک کا نام دیا جائے  یا باہمی علاقائی منسلکی کا۔دنیلا گینچ نے کہا کہ کریما تاریخی طور پر روس کا حصہ تھاسویت رہنما نکولائی خروشیف نے کریما یوکرین کو دیا تھاکریمیا روس کا حصہ تھا اور روس کا حصہ ہی رہے گادونباس خطے کے حوالے سے صورتحال وقت کے مطابق سامنے آئے گی دونباس کے حوالے سے دیکھیں گے بات چیت کہاں جاتی ہے ،دونباس کے خطے میں روسی زبان بولنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔روسی سفیرنے کہا کہ پاکستان ، روس، چین اورایران خطہ میں اہم کردار اداکرسکتے ہیں۔ایک سوال پر روسی سفیر کا کہنا تھا کہ میاں محمد شہبازشریف نے روس کا دورہ نہیں کیا بلکہ ان کی روسی صدر سے سمرقند میں ایس سی اوکانفرنس کے موقع پر ملاقات ہوئی تھی۔ صحافی کی جانب سے کہا گیا کہ عمران خان نے روس کادورہ کیا تھا، اس پر روسی سفیر نے مزاحیہ انداز میں جواب دیا ہمیں معلوم ہے اب عمران خان کہاں ہیں۔