- چوہدری پرویز الہی،ثاقب نثار، چیف جسٹس عمر عطابندیال کی ساس کی آڈیوز کی تحقیقات بھی کرے گا
- اس کے علاوہ بھی کوئی آڈیو سامنے آئی ہے تو کمیشن اس کا معاملے کا بھی جائزہ لے سکتا ہے۔ اعظم نزیر تارڑ
اسلام آباد (ویب نیوز)
وفاقی حکومت نے ججز کی آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں تین رکنی جوڈیشل کمیشن تشکیل دے دیا۔تین رکنی کمیشن کے سربراہ جسٹس قاضی فائز عیسی ہوں گے جبکہ چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ جسٹس نعیم اختر افغان اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس عامر فاروق اس کے رکن ہوں گے۔کمیشن 30 روز میں تحقیقات مکمل کرے گا۔ حکومت کے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کمیشن کے ٹی او آرز بھی شامل ہیں۔نوٹیفکیشن کے مطابق کمیشن سابق وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کی سپریم کورٹ کے ایک موجودہ جج اور ایک وکیل کے ساتھ آڈیو لیکس کی تحقیقات کرے گا۔سابق وزیر اعلی اور وکیل کے درمیان مخصوص بینچز کے سامنے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنے کی تحقیقات بھی کی جائیں گی۔کمیشن سپریم کورٹ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار، موجودہ چیف جسٹس عمر عطابندیال کی ساس کی مبینہ آڈیوز کی تحقیقات بھی کرے گا۔کمیشن چیف جسٹس ہائی کورٹ کے داماد کے معاملے، عدل کے نظام اور مبینہ طور پر من پسند افراد کے ذریعے انصاف کی فراہمی کا جائزہ بھی لے گا۔نوٹیفیکیشن کے مطابق کمیشن دیکھے گا کہ عدلیہ سے جڑے کون کون سے افراد اس آڈیو سے منسلک ہیں۔جوڈیشل کمیشن مندرجہ بالا معاملات میں ذمے داروں کا قانون کے مطابق احتساب کرنے کا بھی فیصلہ کرے گا اور یہ دیکھے گا کہ کون سی ایجنسی ذمے داروں کا احتساب کرسکتی ہے انکوائری کمیشن 2017 کے سیکشن 10 کے تحت اختیارات کو استعمال کر سکے گا۔ انتظامی مشینری کو کمیشن کی بھرپور معاونت کی ہدایت کی گئی ہے۔اٹارنی جنرل بھی کمیشن کی معاونت کریں گے۔ کمیشن کو تحقیقات کے لیے مزید وقت چاہیے ہوا تو وفاقی حکومت مزید وقت دے گی۔حکومت کے تیار کردہ ٹی او آرز کے مطابق کمیشن پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی اپنے پارٹی رہنما سے سپریم کورٹ میں تعلقات سے متعلق مبینہ آڈیو، چیف جسٹس آف پاکستان کی ساس اورایک وکیل کی اہلیہ کی سپریم کورٹ میں زیر سماعت مقدمات سے متعلق مبینہ آڈیو اور سابق چیف جسٹس کے بیٹے اور دوست کے درمیان ہونے والی بات چیت کی بھی تحقیقات کرے گا۔وفاقی وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے مقامی چینل سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ سپریم کورٹ کے ادارے کی ساکھ کو آڈیو لیکس نے متاثر کیا ہے اور کمیشن قائم کرنا حکومت کا اختیار ہے۔وفاقی حکومت نے 2017 کے ایکٹ کے تحت پہلے بھی کمیشن بنائے ہیں اور یہ کمیشن بھی اس ایکٹ کے تحت بنا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد اور بلوچستان ہائی کورٹس کے چیف جسٹس اس کمیشن کے ممبر ہوں گے۔اس کمیشن میں چیف جسٹس آف پاکستان کو نہیں رکھا گیا نہ ان سے رائے لی گئی ہے۔وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ کیونکہ چیف جسٹس آف پاکستان سے متعلق بھی مبینہ آڈیو لیکس سامنے آئیں ہیں اس لیے جو دوسرے نمبر پر سینیئر ترین جج ہیں ان کو یہ سربراہی سونپی گئی ہے۔انھوں نے کہا کہ کمیشن کے ٹی اور آرز کے مطابق کمیشن نہ صرف ان 11 سے 12 آڈیو لیکس کے معاملے کا جائزہ لے گا بلکہ اس کو یہ اختیار ہو گا کہ اس کے علاوہ بھی کوئی آڈیو سامنے آئی ہے تو کمیشن اس کا معاملے کا بھی جائزہ لے سکتا ہے۔