نیب ترامیم کیس: نیب ترامیم سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرستیں طلب
نیب ترامیم میں بہت سی اچھی باتیں بھی ہیں، نیب ترامیم کیس کوجلد مکمل کرنا چاہتے ہیں۔چیف جسٹس
نیب کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کیا جاتا رہا ہے اور اس چیز کو روکنا چاہیے کہ کوئی انتقامی کارروائی نہ کرے۔دوران سماعت ریمارکس
اسلام آباد(ویب نیوز)
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے قومی احتساب بیورو (نیب) ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے نئے نیب قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرستیں طلب کر لیں۔چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ بینچ پر مشتمل 3 رکنی خصوصی بینچ نے سابق وزیراعظم و چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث کمرہ عدالت میں موجود تھے، وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے۔سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ گڈ ٹو سی یو اٹارنی جنرل صاحب۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل اخبار میں عدالت کی آبزرویشنز پڑھی، مجھ سے منسوب کیا گیا کہ آپ نے تسلیم کیا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں نقائص ہیں، عدالت کے سامنے متعلقہ حکم پڑھنا چاہتا ہوں۔اٹارنی جنرل نے 8 جون کا آرڈر پڑھ کر سنایا اور کہا کہ میں نے لفظ نقائص نہیں اوور لیپنگ استعمال کیا تھا، لیکن رپورٹنگ کچھ اور ہوئی ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کون سے اخبار میں رپورٹ ہوا ہے؟ میرے پاس سارے اخبارات کی کلپنگ موجود ہیں لیکن خبر کے ساتھ کسی کی بائی لائن نہیں تھی، پتا نہیں کیوں میرے حوالے سے سنسر شپ کر رہے ہیں۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ سمجھ نہیں آرہی انگریزی اخبارات میں خبر رپورٹر کے نام سے شائع کیوں نہیں کی جا رہی، معلوم نہیں کیا یہ کوئی سنسر شپ کا نیا طریقہ آیا ہے؟چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے دیکھا اگست میں پارلیمنٹ قانون سازی کے لیے بہت متحرک رہی، پریکٹس اینڈ پروسیجر اور ریویو ایکٹ پر نظرثانی ترجیحات میں نہیں تھی۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمان، ریویو ایکٹ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی منتظر تھی، عدالت نے سپریم کورٹ ریویو ایکٹ پر فیصلہ محفوظ کر رکھا تھا تفصیلی وجوہات کا انتظار تھا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ کی ہر بات مانیں گے مگر یہ بات تسلیم نہیں کریں گے۔چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ کہہ چکے ہیں کہ نیب ترامیم میں بہت سی اچھی باتیں بھی ہیں، نیب ترامیم کیس کوجلد مکمل کرنا چاہتے ہیں۔دریں اثنا عدالت نے نئے نیب قانون سے فائدہ اٹھانے والوں کی فہرستیں طلب کر لیں۔چیف جسٹس نے ہدایت دی کہ نیب ترمیم کے بعد کتنے کیسز عدالتوں سے واپس ہوئے فہرست فراہم کی جائے، ایک فہرست نیب جمع کرا چکا ہے لیکن اسے مزید اپڈیٹ کر کے دوبارہ جمع کرائے۔چیف جسٹس نے وفاقی حکومت کے وکیل سے سوال کیا کہ نئے نیب قانون میں کون سی ایسی پرانی شقیں ہیں جنہیں ختم نہیں کیا گیا، نئے نیب قانون میں کئی اچھی چیزیں بھی ہیں، نیب قانون کی وجہ سے کئی لوگوں نے بغیر جرم جیلیں کاٹیں، ہم نے دیکھنا ہے کہ نئے نیب قانون سے کس کس نے فائدہ اٹھایا۔وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ پاکستان میں احتساب کا ادارہ صرف نیب ہے، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کا استعمال سیاسی مقاصد کے لیے کیا جاتا رہا ہے اور اس چیز کو روکنا چاہیے کہ کوئی انتقامی کارروائی نہ کرے۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ ہم اس مقدمے میں بہت زیادہ وقت صرف کر رہے ہیں، اس کیس میں کوئی سیاسی جماعت، مالیاتی ادارہ ہمارے سامنے فریق نہیں ہے۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمیں اس بات پر فوکس رکھنا ہو گا کہ نیب ترمیم کا ٹارگٹ کون ہیں، احتساب جمہوریت کی بنیاد ہوتا ہے اور انتخابات اور ووٹ بھی حکومت اور ارکان پارلیمنٹ کے احتساب کا ایک طریقہ کار ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب ترامیم سے کئی جرائم کو ختم کیا گیا، کچھ کی حیثیت تبدیل کی گئی اور ترامیم سے کچھ جرائم کو ثابت کرنا ہی انتہائی مشکل بنا دیا گیا ہے، کم سے کم حد 50 کروڑ کرنے سے کئی مقدمات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر کیے گئے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ نیب ایک ہی ملزم پر کئی مقدمات بنا لیتا ہے جن میں سیکڑوں گواہان ہوتے ہیں، سیکڑوں گواہان کی وجہ سے نیب مقدمات کئی کئی سال چلتے رہتے ہیں، اصل چیز کرپشن کے پیسے کی ریکوری ہے اور ریکوری نہ بھی ہو تو کم از کم ذمہ دار کی نشاندہی اور سزا ضروری ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ درست ہے کہ نیب قانون میں کئی خامیاں ہیں اور اس کا اطلاق بھی درست انداز میں نہیں کیا گیا۔سرکاری وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے کہ نیب قانون کا غلط استعمال ہو رہا تھا، ترمیم لازمی تھیں، اسفند یار ولی اور کئی دیگر مقدمات میں نیب قانون کے بارے میں آبزرویشن دی گئیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ابھی تک ہمیں پتا نہیں کہ کون سا بنیادی حق متاثر ہو رہا ہے۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کرپشن کے بارے میں بنیادی بات یہ ہے کہ یہ معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے اور کرپشن سے آگے بڑھنے کے مساوی مواقع ختم ہو جاتے ہیں، جبکہ کرپشن سے آپ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، آپ کی معیشت کا ایک بڑا حصہ ایک خاص طبقے کے پاس ہے۔انہوں نے ریمارکس دیے کہ لوگوں کو لیول پلینگ فلیڈ نہیں ملتی،کرپشن سے نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، یہ معاملہ پھر بنیادی حقوق تک پہنچ جاتا ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لیول پلینگ فلیڈ سیلاب متاثرین سے لے کر کئی لوگوں کو نہیں ملتی، میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاملہ ہم نے دیکھنا ہے، کیا ہم کہہ دیں آج سے ان علاقون میں کوئی رہے ہی نہ جہاں سیلاب آتا ہے، ہم یہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ آدھا ملک ایسی جگہوں پر آباد ہے اور زندگی تو فیئر ہے ہی نہیں، سوسائٹی میں یہ مسائل ہوتے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت دیکھنا چاہتی ہے کہ قانون سازی سے کسی غلط چیز کا دروازہ تو نہیں کھولا گیا، یہ کہہ دینا کہ احتساب کا بنیادی حقوق سے کوئی نہیں بہت سادہ بات لگتی ہے۔وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب ترامیم کے خلاف وہ شخص عدالت آیا جو خود وزیراعظم رہ چکا ہے، جب وہ وزیراعظم تھے وہ خود اور ان کے وزیر خزانہ بھی کہتے تھے نیب قانون سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔بعد ازاں عدالت نے درخواست پر سماعت آج جمعرات تک ملتوی کردی۔