چین کے نئے نقشے میں انڈیا کے بعض حصے شامل کرنے پربھارت کا  شدید ردعمل

چین کے اس طرح کے اقدامات سرحدی مسائل کے حل کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں،ترجمان بھارتی وزارت خارجہ

چین ہمیں سوئی چبھونے کا کوئی موقع بھی جانے نہیں دیتا،بھارت میں سوشل میڈیا پرمودی حکومت کو تنقید

نئی دہلی (ویب  نیوز)

انڈیا نے چین کے جاری کردہ نئے نقشے میں اروناچل پردیش اور اکسائی چن کے کچھ حصوں کو شامل کرنے پر سفارتی طور پر احتجاج ریکارڈ کرایا ہے۔انڈیا کی وزارت خارجہ نے منگل کو ایک بیان جاری کر کے اس کی اطلاع دی ہے۔عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اپنی ٹویٹ میں اس بارے میں معلومات دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ آج ہم نے مبینہ معیاری نقشے کے حوالے سے سفارتی سطح پر چین سے سخت مخالفت کا اظہار کیا۔باگچی نے اس ٹویٹ میں مزید کہا کہ اس طرح کے کسی بھی دعوے کی کوئی بنیاد نہیں۔ چین کے اس طرح کے اقدامات سرحدی مسائل کے حل کو پیچیدہ بنا دیتے ہیں۔انڈیا کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے بھی چین کے جاری کردہ نقشے میں اروناچل پردیش کو شامل کرنے پر اپنا ردعمل ظاہر کیا اور چین کے دعوے کو مضحکہ خیز قرار دیا۔بھارتی ٹی وی این ڈی ٹی وی کے ساتھ بات چیت میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر نے کہا کہ یہ چین کی پرانی عادت ہے۔ وہ دوسرے ممالک کے علاقوں پر دعوی کرتا رہتا ہے اور وہ یہ دعوی 1950 کے زمانے سے کر رہا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ہماری حکومت اپنے ملک کے دفاع کے حوالے سے اپنی پوزیشن واضح کر چکی ہے۔ کسی بھی قسم کے بیہودہ دعوے سے دوسروں کے علاقے آپ کے نہیں ہو جاتے۔واضح رہے کہ چین نے پیر کو ایک نیا نقشہ جاری کیا۔ اس نقشے میں اروناچل پردیش، اکسائی چن کو چین کا حصہ بتایا گیا۔اس نقشے کو شیئر کرتے ہوئے انگریزی روزنامہ گلوبل ٹائمز، جسے چین کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان سمجھا جاتا ہے، نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ چین کا 2023 کا نقشہ پیر کو جاری کیا گیا۔ یہ نقشہ قدرتی وسائل کی وزارت کی ویب سائٹ پر جاری کیا گیا۔ یہ نقشہ چین اور دنیا کے دیگر ممالک کی ڈرائنگ کے طریقہ کار کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔یہ نقشہ ایسے وقت میں جاری کیا گیا، جب کچھ دن پہلے برکس کانفرنس کے دوران انڈین وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کی ملاقات ہوئی تھی۔دریں اثنا کانگریس کے رکن پارلیمنٹ راہل گاندھی نے چین کے ساتھ جاری تنازع پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔راہول گاندھی نے بدھ کی صبح دلی سے بنگلور کے لیے روانہ ہوتے ہوئے میڈیا سے بات کی اور کہا کہ میں برسوں سے کہہ رہا ہوں کہ وزیر اعظم نے جو کہا کہ ایک انچ زمین بھی نہیں گئی، وہ جھوٹ ہے۔ میں لداخ سے آیا ہوں۔ مودی نے کہا تھا کہ لداخ میں ایک انچ زمین بھی نہیں گئی۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔راہول گاندھی نے کہا کہ پورا لداخ جانتا ہے کہ چین نے ہماری زمین چھین لی۔ اس نقشے کا معاملہ بہت سنگین ہے۔ انھوں نے زمین لے لی ہے۔ وزیراعظم کو اس پر بھی کچھ کہنا چاہیے۔خیال رہے کہ ایک ہفتے قبل راہول گاندھی موٹر سائیکل سے لداخ کے دورے پر گئے تھے۔کارگل میں منعقدہ جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے راہول گاندھی نے کہا تھا کہ چین نے انڈیا کی زمین چھینی اور مودی اس معاملے میں سچ نہیں بول رہے۔نئے نقشے کے حوالے سے جہاں انڈین صارفین کے جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر پر چین پر تنقید کی جا رہی ہے، وہیں انڈین حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔روبی ارون نامی صارف نے نقشے کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ چین نے نیا نقشہ جاری کیا، جس میں انڈیا کے علاقے اکسائی چن اور اروناچل پردیش کو دکھایا گیا چونکہ اس بات پر چرچا نہ ہو اس لیے گیس کی قیمتوں میں 200 روپے کی کمی کر دی گئی اور نیوز چینلز کو اپنی تعریف میں لگا دیا گیا۔برگیڈیئر ہردیپ سنگھ سودھی نے چین کے نقشے کے حوالے سے لکھا کہ ہم چین کی ون چائنا پالیسی کی حمایت کیوں کرتے ہیں جب وہ ہمیں سوئی چبھونے کا کوئی موقع بھی جانے نہیں دیتا؟ کیا ہمیں تبت کا معاملہ نہیں اٹھانا چاہیے؟ کسی پریشان کرنے والے کے سامنے جھکنا اسے مزید حوصلہ مند بناتا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ ٹکر لی جائے۔بہت سے لوگوں نے راہل گاندھی کے حالیہ تبصرے کو ٹویٹ کیا، جس میں انھوں نے چین کی جانب سے انڈین سرزمین پر قبضہ کرنے اور چین کے نقشے کو سنجیدہ معاملہ قرار دیا ہے۔ویسے تو انڈیا اور چین کے درمیان سنہ 1962 میں ایک جنگ بھی ہو چکی ہے لیکن سنہ 2020 میں مئی کے پہلے ہفتے میں انڈین اور چینی فوجیوں کے درمیان ہونے والی جھڑپ کے بعد سے انڈیا اور چین کے تعلقات مستقل طور پر کشیدہ ہیں۔اس جھڑپ میں انڈیا کے تقریبا 20 فوجی مارے گئے تھے جبکہ چین نے کئی ماہ بعد اپنے چار فوجیوں کے مارے جانے کا اعتراف کیا تھا۔انڈین میڈیا میں چین کی جانب سے انڈین سرزمین میں داخل ہونے کی بات کہی گئی تھی تو انڈیا کے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ نہ کوئی آیا اور نہ ہی اس زمین پر کوئی ہے اور نہ کسی حصے پر قبضہ کیا گیا لیکن حزب اختلاف نے اس کے بارے میں حکومت سے سخت سوالات کیے تھے۔انڈیا اور چین کے درمیان اس معاملے کے بعد سے کئی مرحلے اور مختلف سطح پر بات چیت ہوئی لیکن دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں بظاہر کوئی کمی نظر نہیں آ رہی۔لداخ میں وادی گلوان کی جھڑپ کے بعد ایل اے سی کے دونوں جانب ہزاروں فوجی تعینات ہیں اور سرحد پر کشیدگی کا ماحول برقرار رہا۔چینی صدر شی جن پنگ اور انڈین وزیراعظم مودی کے درمیان گذشتہ ہفتے بدھ کو ملاقات ہوئی لیکن اسے راز میں رکھا گیا۔ جمعرات کی شام کو انڈیا کے سکریٹری خارجہ ونے کوترا نے اس میٹنگ کے بارے نامہ نگاروں کو بتایا۔ونے کوترا نے بتایا کہ صدر شی سے اپنی ملاقات میں وزیراعظم مودی نے لداخ میں انڈیا چین کے سرحدی علاقوں میں ایل اے سی پر تصفیہ طلب معاملات پر اپنی تشویش سے آگاہ کیا۔انھوں نے مزید بتایا کہ وزیر اعظم نے کہا کہ انڈیا اور چین کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سرحدی خطے میں امن و سکون برقرار رکھنا اور ایل اے سی کو پوری طرح ماننا اور اس کا احترام کرنا لازمی ہے۔اسی دوران جمعے کو بیجنگ میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ صدر شی نے وزیراعظم مودی کی درخواست پر یہ ملاقات کی تھی۔اس بیان کے مطابق دونوں رہنماوں نے چین اور انڈیا کے تعلقات کی موجودہ صورتحال اور باہمی مفاد کے دوسرے پہلوں پر گہری اور کھل کر بات چیت کی۔ صدر شی نے کہا کہ دونوں ملکوں کو اپنے باہمی تعلقات کے مفاد کو ذہن میں رکھنا چاہیے اور سرحدی مسئلے کو اس طرح حل کیا جائے کہ مشترکہ طور پر خطے میں امن و سکون کا تحفظ کیا جا سکے۔۔