ارشد شریف قتل کیس، کینیا پولیس کے خلاف ٹرائل کا آغاز
الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کا کیس کجیادو ہائی کورٹ میں شروع ہوگیا ہے
نیروبی ( ویب نیوز)
کینیا کی ایلیٹ پولیس یونٹ کے خلاف گزشتہ سال نیروبی میں قتل ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کے کیس میں ٹرائل کا آغاز ہوگیا۔قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کا کیس کجیادو ہائی کورٹ میں شروع ہوگیا ہے جہاں درخواست گزار نے دعوی کیا ہے کہ ارشد شریف کو قتل کیا گیا تھا، جس کی منصوبہ بندی پاکستان میں کی گئی تھی۔خیال رہے کہ ارشد شریف کو گزشتہ سال اکتوبر میں اس وقت قتل کیا گیا تھا جب وہ ایک اور پاکستانی شہری کے ہمراہ کار میں نیروبی کے باہر ایک چیک پوائنٹ سے گزر رہے تھے جہاں پولیس نے ان پر فائرنگ کردی تھی۔اس وقت نیروبی پولیس نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کو غلط شناخت پر گولی لگی جب اسی طرح کی ایک اور کار کی تلاش کی جا رہی تھی جو کہ بچے کے اغوا میں ملوث تھی۔لیکن بعدازاں پاکستانی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم نے کہا تھا کہ ارشد شریف کی موت منصوبہ بندی کے ساتھ کیا گیا قتل تھا۔ارشد شریف کی بیوہ جویریہ صدیق نے کینیا پولیس یونٹ کے خلاف وہاں کی مقامی عدالت میں مقدمہ درج کیا تھا۔کینیا کی پولیس نے دعوی کیا تھا کہ ارشد شریف نیروبی کے باہر پولیس چیک پوسٹ پر نہیں رکے تھے لیکن ان کے اہل خانہ اور پاکستانی تفتیش کاروں نے اس مقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا منصوبہ پاکستان میں بنایا گیا تھا۔جویریہ صدیق نے بتایا کہ میں کینیا پولیس یونٹ پر مقدمہ درج کر رہی ہوں کیونکہ انہوں نے کھلے عام جرم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک یہ ٹارگیٹڈ قتل تھا کیونکہ پاکستان میں دھمکیاں ملنے کے بعد وہ کینیا میں مقیم تھے۔جویریہ صدیق کے ساتھ ساتھ کینیا یونین آف جرنلسٹس اور کینیا کے صحافی بھی مشترکہ درخواست کا حصہ ہیں۔درخواست گزار نے موقف اختیار کیا ہے کہ کینیا کے حکام ارشد شریف کے قتل میں ملوث افسران پر مقدمہ چلانے میں ناکام ہوگئے ہیں اور مطالبہ کیا گیا ہے کہ کینیا پولیس ارشد شریف کے اہل خانہ سے عوامی سطح پر معافی مانگے۔صحافیوں کی تنظیم کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نے تاخیر سے اس لیے عدالت سے رجوع کیا ہے کیونکہ ہم سوچ رہے تھے کہ تفتیش کی جائے گی اور ملوث افسران پر مقدمہ چلایا جائے لیکن تاحال اس طرح کا کچھ نہیں ہوا اس لیے ہمارے پاس عدالت سے رجوع کرنے کا جواز ہے۔رپورٹ کے مطابق اسلام آباد میں پولیس نے کینیا کے دو پاکستانی تاجروں کو ارشد شریف کی وہاں میزبانی کرنے اور قتل میں ملوث ہونے کے شبہے میں گرفتار کیا ہوا ہے۔ارشد شریف گزشتہ سال اگست میں اپنے خلاف کئی مقدمات درج ہونے کے بعد پاکستان چھوڑ گئے تھے، ابتدائی طور پر وہ متحدہ عرب امارات میں رہے، جس کے بعد وہ کینیا چلے گئے جہاں انہیں اکتوبر میں قتل کردیا گیا تھا۔ابتدائی طور پر کینیا کے میڈیا نے مقامی پولیس کے حوالے سے کہا کہ ارشد شریف کو پولیس نے غلط شناخت پر گولی مار کر ہلاک کر دیا، بعد میں کینیا کے میڈیا کی رپورٹس نے قتل سے متعلق واقعات کی رپورٹنگ کرتے ہوئے بتایا کہ ارشد شریف کے قتل کے وقت ان کی گاڑی میں سوار شخص نے پیراملٹری جنرل سروس یونٹ کے افسران پر گولی چلائی۔اس کے بعد حکومت پاکستان نے تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی جو قتل کی تحقیقات کے لیے کینیا گئی تھی۔قتل کے فوری بعد جاری بیان میں کینیا پولیس نے کہا تھا کہ پولیس نے ان کی گاڑی پر رکاوٹ عبور کرنے پر فائرنگ کی، نیشنل پولیس سروس (این پی ایس) نیروبی کے انسپکٹر جنرل کے دفتر سے جاری بیان میں کہا گیا کہ 50 سالہ پاکستانی شہری ارشد محمد شریف گاڑی نمبر کے ڈی جی 200 ایم پر سوار مگادی، کاجیادو کی حدود میں پولیس کے ایک واقعے میں شدید زخمی ہوگئے تھے۔کینیا کی پولیس نے واقعے کے لواحقین سے اظہار افسوس کرتے ہوئے بیان میں مزید کہا تھا کہ این پی ایس اس واقعے پرشرمندہ ہے، متعلقہ حکام واقعے کی تفتیش کر رہی ہیں تاکہ مناسب کارروائی ہو۔کینیا کے میڈیا میں فوری طور پر رپورٹس میں دعوی کیا گیا تھا کہ ارشد شریف کے قتل کا واقعہ پولیس کی جانب سے شناخت میں غلط فہمی کے نتیجے میں پیش آیا۔پولیس نے دعوی کیا تھا کہ ارشد شریف اور ان کے ڈرائیور نے ناکہ بندی کی مبینہ خلاف ورزی کی جس پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی، سر میں گولی لگنے کی وجہ سے ارشد شریف موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے جبکہ ان کے ڈرائیور زخمی ہوگئے۔