چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مدت ملازمت میں توسیع لینے سے معذرت کرلی
ایک میٹنگ ہوئی تھی ، بتایا گیا تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں
میں نے کہا کہ باقیوں کی کر دیں میں صرف اپنے لئے قبول نہیں کروں گا
میں مجوزہ قانون سازی کے حوالہ سے کوئی رائے نہیں دوں گاہوسکتا ہے کل کو وہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوجائے اورپھر کہا جائے گا کہ میں پہلے ہی اپنی رائے دے چکا ہوں
 امریکہ کی مثالیں دی جاتی ہیں جہاں پہلے ہی پتہ ہوتا ہے کہ کتنے جج ڈیموکریٹ ہیں اورکتنے ریپبلیکن ہیں اورفیصلہ کیاآئے گا لیکن پاکستان میں ایسا نہیں، چیف جسٹس کی صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو

اسلام آباد( ویب  نیوز)

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مدت ملازمت میں توسیع لینے سے معذرت کرلی۔سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کے آغاز پر فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کے بعد ریفریشمنٹ کے موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کی۔صحافی نے سوال کیا کہ رانا ثنا اللہ صاحب کہہ رہے ہیں کہ اگر تمام جج صاحبان کی عمر بڑھا دی جائے تو آپ بھی ایکسٹینشن لینے پر متفق ہیں؟اس پر چیف جسٹس نے جواب دیا کہ رانا ثنا اللہ صاحب کو میرے سامنے لے آئیں، ایک میٹنگ ہوئی تھی جس میں وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، جسٹس منصور علی شاہ صاحب اور اٹارنی جنرل  منصور عثمان اعوان موجود تھے، اس میٹنگ میں رانا ثنا اللہ موجود نہیں تھے، بتایا گیا تمام چیف جسٹسز کی مدت ملازمت میں توسیع کر رہے ہیں، میں نے کہا کہ باقیوں کی کر دیں میں صرف اپنے لئے قبول نہیں کروں گا، مجھے تو یہ نہیں پتہ کہ کل میں زندہ رہوں گا بھی یا نہیں۔چھ ججز کے خط کا معاملہ سماعت کے لئے مقرر نہ ہونے سے متعلق سوال پر چیف جسٹس نے کہا کہ چھ ججز کے خط کا معاملہ کمیٹی نے مقرر کرنا ہے، جسٹس مسرت ہلالی طبیعت کی ناسازی کے باعث نہیں آرہی تھیں اس وجہ سے بینچ نہیں بن پا رہا تھا۔نئے عدالتی سال کے اہداف سے متعلق سوال کے جواب میں چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیس منیجمنٹ سسٹم میں بہتری لائیں گے، کرنے کیلئے بہت کچھ ہے، جو تجاویز اٹارنی جنرل منصورعثمان اعوان، پاکستان بارکے وائس چیئرمین سینیٹر فاروق حمید نائیک اور سپریم کورٹ بار ایسوسی سیشن کے صدر بیرسٹر محمد شہزادشوکت کی جانب سے جوتجاویر دی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ایک وکیل کالم نگار طلعت عباس نے چیف جسٹس سے ملاقات کاوقت مانگااور کہا کہ میں کچھ موضوعات پربات کرنا چاہتا ہوں اگر ملاقات نہ کی تو میں باتیں لکھ دوں گا پھر گلہ نہ کرنا۔ اس پر چیف جسٹس کاکہناتھا کہ انفرادی طور پر کسی سے نہیں ملتا، میں پاکستان بارکونسل، سپریم کورٹ بار کونسل اور پریس ایسوسی ایشن کی منتخب قیادت سے ملاقات کرتا ہوں، کسی سے انفرادی طور ملوں توپتہ  نہیں کیا کیا باتیں بنائی جائیں گی۔ چیف جسٹس کاوکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر میں ملاقات نہیں کروں گاتوکیا آپ مجھے گالیاں نکالیں گے۔ ایک سینئر صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ ججز کی تعداد میں اضافہ کے حوالے سے قانون سازی کی جارہی ہے۔ اس پر چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ صحافی اس حوالہ سے بات نہیں کریں گے کہ سپریم کورٹ میں موجود منظورشدہ آسامیاں بھی خالی تھیں وہ کیوںخالی تھیں، میں نے وہ آسامیاں آکر مکمل کی ہیں۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں مجوزہ قانون سازی کے حوالہ سے کوئی رائے نہیں دوں گاہوسکتا ہے کل کو وہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوجائے اورپھر کہا جائے گا کہ میں پہلے ہی اپنی رائے دے چکا ہوں، فاروق حمید نائیک رکن پارلیمنٹ بھی ہیں یہ سوال ان سے کیا جائے۔ ایک صحافی کی جانب سے سوال کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں موجود ہ انتظام کو جاری رکھنے کی باتیں کی جارہی ہیں۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ امریکہ کی مثالیں دی جاتی ہیں جہاں پہلے ہی پتہ ہوتا ہے کہ کتنے جج ڈیموکریٹ ہیں اورکتنے ریپبلیکن ہیں اورفیصلہ کیاآئے گا لیکن پاکستان میں ایسا نہیں،میں جو بینچ بناتا ہوں اس کے بارے میں مجھے بھی پتہ نہیں ہوتا کہ فیصلہ کیا آئے گا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ میں کون سے جج کی تعیناتی اسنیارٹی سے ہٹ کر کی، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس عقیل احمد عباسی کو نظرانداز کیا جارہا تھا، میںنے جسٹس عقیل احمد عباسی کو جج بنایا اورانہوں نے تین دن بعد ہی میرے ساتھ فیصلے میں اختلاف کیا۔ چیف جسٹس کاکہنا تھا کہ لاہور ہائی کورٹ کے2سینئر ججز کونظر انداز کرکے جسٹس عالیہ نیلم کی بطور چیف جسٹس تقرری کی گئی جو کہ جوڈیشنل کمیشن نے اتفاق رائے سے کی، اگر4کے مقابلہ میں 5ارکان منظوری دیتے توپھر مجھ پرالزام لگتا تودرست ہوتا کہ میں نے تعینات کروایا۔ صحافیوں سے گفتگو کے دوران چیف جسٹس نے عدالتی عملے سے کہا کہ ان کے لئے چائے لے کر آئیں تواس پر ایک قاصد چائے لے کرآیا تاہم چیف جسٹس نے لینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ اس میں دودھ زیادہ ڈالا گیا ہے اس کے بعد چیف جسٹس نے کہا کہ دوبارہ بنا کر لائیں۔ دوبارہ بڑا کپ چائے کابناکرچیف جسٹس کوپیش کیا گیا جس سے چیف جسٹس لطف اندوز ہوئے۔