حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعدایران،حزب اللہ اسرائیل پر جوابی وار کر سکتے۔غیرملکی تجزیہ نگار
ایران کوسخت ردعمل کے لئے عراق میں 55 سے زیادہ گروہوں کی بھی حمایت حاصل ہے
خطے میں بڑی جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ
تہران+لندن( ویب نیوز)
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد عالمی سطح پر ایران ولبنان کا ممکنہ ردعمل موضوع بحث بن گیا غیرملکی تجزیہ نگاروں کاخیال ہے کہایران اور حزب اللہ اسرائیل پر جوابی وار کر سکتے, کیونکہ صرف عراق میں ایران کو 55 سے زیادہ گروہوں کی حمایت حاصل ہے,خطے میں بڑی جنگ کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔برطانوی نشریاتی ادارے کی رپورٹ کے مطابق پر حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد ابتدائی ردِعمل دیتے ہوئے ایران کے رہبرِ اعلی نے کہا ہے کہ خطے میں تمام مزاحمتی تنظیمیں حزب اللہ کے ساتھ ہیں اور اس کی حمایت کرتی ہیں۔ایرانی رہبرِ اعلی نے اپنے بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ خواتین، بچوں اور عام شہریوں کے اجتماعی قتل سے مزاحمتی تںطیم کی طاقت پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی اسے تباہ کیا جا سکتا ہے۔خیال رہے کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان کشیدگی گذشتہ برس سات اکتوبر کے بعد سے ہی جاری ہے لیکن رواں ہفتے اس کشیدگی میں شدت اس وقت دیکھنے میں آئی جب حزب اللہ نے اسرائیل پر حملے کیے اور اسرائیل نے لبنان پر فضائی کارروائیوں کا سلسلہ شروع کیا۔پیر سے لبنان میں شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 700 سے زیادہ افراد مارے گئے ہیں۔ایسے میں یہ سوال بھی اٹھ رہا ہے کہ مشرقِ وسطی میں اپنے اہم اتحادی کے خلاف کارروائیوں اور سینیئر رہنماں کی ہلاکتوں پر ایران کی جانب سے خاموشی اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا ہے؟۔لبنان میں حزب اللہ کے خلاف شروع ہونے والی اسرائیلی کارروائیوں کے بعد ایران کی جانب سے سفارتی سطح پر تو سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں لیکن اس معاملے تہران کی جانب سے اب تک کوئی عسکری کارروائی نہیں کی گئی ہے۔حالیہ دنوں میں ایران نے اسلامی تعاون تنظیم اور اقوام متحدہ میں اسرائیلی حملوں کا معاملہ ضرور اٹھایا ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے اس حوالے سے ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا تھا کہ لبنان اور غزہ میں اسرائیلی حملوں پر خاموشی کے سبب مستقبل میں پوری دنیا کے عوام کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔ایران کے سرکاری میڈیا کے مطابق انھوں نے حزب اللہ پر کیے جانے والے حملوں کو جنگی جرائم قرار دیا اور کہا کہ ان حملوں پر اسرائیل اور امریکہ کا احتساب ہونا چاہیے۔اس سے قبل رواں برس اپریل میں اسرائیل نے دمشق میں بھی ایرانی سفارتی عمارت کو نشانہ بنا چکا ہے جس میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سات اہلکار اور چھ شامی باشندے مارے گئے تھے۔اس کے کچھ روز بعد ایران نے اسرائیل پر تقریبا 300 ڈرونز اور میزائلوں کے ذریعے حملہ کیا تھا۔اس کے بعد رواں برس جولائی میں ہی ایک حملے میں فلسطینی تنظیم حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ تہران میں ایک حملے میں شہیدہو گئے تھے۔اسرائیل نے اس واقعہ ذمہ داری قبول نہیں کی تھی تاہم خیال یہی ظاہر کیا جا رہا تھا کہ اس حملے کے پیچھے اسرائیل ہی ہے۔متعدد ایرانی حکام اس حوالے سے کہہ چکے ہیں کہ ان کا ملک اپنی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے ایران کے خلاف کارروائی کرے گا لیکن تاحال ایران کی جانب سے کوئی عسکری جواب دیکھنے میں نہیں آیا ہے۔حالیہ حملے میں حسن نصراللہ اور دیگر حزب اللہ کے کمانڈر ہلاک ہوئے بلکہ ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر عباس نلفوروشن بھی مارے گئے۔ایسے میں یہ سوالات اٹھ رہے ہیں کہ ایران اپنے اتحادی گروہ کے سربراہ اور پاسدارانِ انقلاب کے ڈپٹی کمانڈر کی ہلاکت پر کیا ردِعمل دے گا۔یہی سمجھا جاتا ہے کہ ایران میں تمام اہم فیصلے رہبرِ اعلی آیت اللہ علی خامنہ ای کی مرضِی سے لیے جاتے ہیں۔ وہ حسن نصر اللہ کی شہادت کے بعد ایک بیان میں کہتے ہیں کہ خطے میں تمام مزاحمتی تنظیمیں حزب اللہ کے ساتھ ہیں اور اس کی حمایت کرتی ہیں۔انھوں نے کہا کہ حزب اللہ کے سربراہ کے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ان کے بیان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ ان کا اشارہ شاید محورِ مزاحمت یا ایکسز آف رزسٹینس کی طرف ہے۔مشرق وسطی میں ایران کے ساتھ تعلقات رکھنے والے مسلح گروہوں کی بہتات ہے، جن میں غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ، یمن میں حوثی، اور عراق، شام اور بحرین میں سرگرم دیگر گروپ شامل ہیں۔مزاحمت کے محور کے نام سے جانے جانے والے ان میں سے بہت سے گروہوں کو مغربی ممالک نے غیرقانونی گروہ قرار دیا ہے، اور تھنک ٹینک کرائسز گروپ میں ایرانی امور کے ماہر علی واعظ کے مطابق، ان کا ایک ہی مقصد ہے اور وہ یہ کہ خطے کو امریکہ اور اسرائیل سے لاحق خطرات سے بچایا جائے۔ان کا کہنا ہے کہ ایران سمجھتا ہے کہ اسے سب سے بڑا خطرہ امریکہ سے ہے اور پھر اس کے فورا بعد اسرائیل ہے، جسے ایران خطے میں امریکہ کے گماشتے کے طور پر دیکھتا ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ ایران کی طویل المدتی حکمتِ عملی نے یہ ناقابل یقین نیٹ ورک بنایا ہے جو اسے اپنی طاقت دکھانے کی اجازت دیتا ہے۔حسن نصراللہ کی شہادت پر یمن کے حوثیوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ حزب اللہ کے سربراہ کی موت کا سوگ منا رہے ہیں اور حزب اللہ کے لیے ان کی حمایت بڑھے گی اور مضبوط ہو گی۔دوسری جانب حماس کا ایک بیان میں کہنا ہے کہ قابضین کے جرائم اور قتل و غارت گری سے فلسطین اور لبنان میں مزاحمت کے عزم میں اضافہ ہوگا۔مشرقِ وسطی کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ خطے میں بڑی جنگ ناگزیر تو نہیں لیکن گذشتہ 24 گھنٹوں میں رونما میں ہونے والے واقعات کے سبب اس کے امکانات ڈرامائی طور پر بڑھ گئے ہیں۔بی بی سی کے نامہ نگار برائی سکیورٹی امور فرینک گارڈنر کہتے ہیں کہ زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ ہمیں اب اس تنازع میں عراق اور شام میں موجود ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروہ مزید متحرک نظر آئیں گے۔امریکی تھنک ٹینک نیولائنز انسٹٹیوٹ کے ڈائریکٹر کامران بخاری بھی کہتے ہیں کہ مشرقِ وسطی کے حالات کا دارومدار ایرانی ردِعمل پر ہوگاانھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران پر آج سے پہلے (اسرائیل کو) ردِ عمل دینے کا دبا شاید پہلے نہ آیا ہو۔لیکن سوال یہ ہے کہ وہ ایسا کیا کر سکتا ہے جس کا کوئی ایسا ردِعمل سامنے نہیں آئے جو کہ اس کے لیے زیادہ نقصان دہ ہو۔کامران بخاری کہتے ہیں کہ ماضی میں بھی ایران محورِ مزاحمت کو اسرائیل کے خلاف متحرک کر چکا ہے لیکن اب وہ اور کیا کر سکتے ہیں جو مزید طاقتور ردِعمل تصور ہو۔مشرقِ وسطی میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں نظر رکھنے والے محققین یہ کہتے ہیں کہ حسن نصر اللہ کی موت پر ایرانی ردِ عمل پر بات کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ماضی میں اس طرح کے حملوں پر ایران کا کیا جواب آیا ہے۔واشنگٹن انسٹٹیوٹ فار نیئر ایسٹ پالیسی کے سابق سینیئر فیلو فِلپ سمتھ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی پاسدارانِ انقلاب اور لبنانی حزب اللہ کے اعلی عہدیدار مارے گئے ہیں، اس وقت ایران کی جانب سے جو ردِعمل آیا وہ ایرانی طاقت کا کوئی خاطر خواہ مظاہرہ نہیں تھا۔میرے خیال میں حسن نصراللہ کو اس لیے ہی مارا گیا ہے کیونکہ اسرائیل نے بالآخر ایران کی حکمت عملی کو بے نقاب کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ اس سے قبل امریکہ بھی عراق میں پاسدارانِ انقلاب کی القدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی اور عراقی عسکری گروہ کے سربراہ ابو مہدی مہندس کو ہلاک کر کے یہ اقدام کر چکا ہے۔لیکن فلپ سمتھ کہتے ہیں اس بات کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ ایران اور حزب اللہ اسرائیل پر جوابی وار نہیں کر سکتے کیونکہ صرف عراق میں ایران کو 55 سے زیادہ گروہوں کی حمایت حاصل ہے۔ان کے مطابق یمن میں حوثی بھی بین الاقوامی تجارت کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور وہ ماضِی میں اپنے حملوں سے یہ بات ثابت بھی کر چکے ہیں۔ایران اور حزب اللہ سمیت اس کے حمایت یافتہ تمام گروہ اسرائیل کو کوئی بڑا ردِ عمل تو دینا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایسا کرسکتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ آیت اللہ علی خامنہ ای اور پاسدارانِ انقلاب کے لیے اب بھی کچھ نہ کرنا بہت مشکل ہو گا۔کیونکہ اس سے پہلی وہ جو بھی کہتے رہے ہیں وہ زیادہ تر صرف خالی پروپیگینڈا تھا۔ایران کا اگلا قدم کیا ہو گا یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن کامران بخاری کہتے ہیں کہ خامنہ ای کو کسی محفوظ مقام پر منتقل کرنے کی اطلاعات آ رہی ہیں اور اس سے لگتا یہی ہے کہ انھیں کسی اسرائیلی حملے کا ڈر ہے۔وہ مزید کہتے ہیں کہ اس وقت ان کی ترجیح یہی ہے کہ کسی بھی عسکری سانحے (حزب اللہ پر اسرائیلی حملوں)کو روکیں تاکہ لبنان میں حزب اللہ کو کوئی سیاسی نقصان نہ ہو۔وہ نہیں چاہیں گے کہ حزب اللہ کو اپنے ملک میں کسی بھی قسم کے سیاسی مسائل کا سامنا کرنا پڑے۔