مدارس رجسٹریشن بل: لگتا ہے ایوان صدر بیرونی دباؤ کا شکار ہے، جے یو آئی (ف)
اسلام آباد ( ویب نیوز )
جمعیت علمائے اسلام (ف) نے صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے مدارس رجسٹریشن بل پر اعتراضات لگانے پر ردعمل کا اظہار کر دیا۔
جے یو آئی (ف) کے ترجمان نے کہا کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کے مدارس بل پر اعتراضات حیران کن ہیں کیونکہ اعتراضات کا طریقہ قانون کے مطابق نہیں۔
ترجمان نے کہا کہ صدر مملکت کے اعتراضات آئین میں دی گئی مدت کے اندر نہیں ہیں، اعتراضات قسطوں میں ہوئے ایک بار اعتراضات کا جواب دیا گیا دوبارہ حق نہ تھا، اعتراضات اسپیکر قومی اسمبلی کو بھیجنے چاہیے تھے جبکہ نہیں بھیجے گئے۔
انہوں نے کہا کہ جو اعتراض اسپیکر کو بھیجا گیا تھا اس کا جواب دے دیا گیا تھا، اسپیکر آفس کے جواب پر ایوان صدر نے اپنے اعتراضات پر دوبارہ زور نہیں دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر زرداری کی جانب سے مجوزہ ترمیم پر اعتراض کے ساتھ تجاویز اور حل بھی بھیجا جاتا ہے، مدارس بل میں کوئی تجاویز اور حل نہیں بتائی جا رہیں، لگتا ہے کہ ایوان صدر بیرونی دباؤ کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ صدر مملکت آصف علی زرداری کی جانب سے مدارس رجسٹریشن بل پر 8 اعتراضات اٹھائے گئے اور پہلے سے موجود قوانین کا حوالہ دیا گیا۔
اعتراضات میں کہا گیا کہ نئے بل کی مختلف شقوں میں مدرسے کی تعریف تضاد ہے، مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 موجود ہے، نئی قانون سازی ممکن نہیں، اسلام آباد کیپٹیل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 بھی موجود ہے۔
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ مدارس کو سوسائٹی رجسٹر کرانے سے تعلیم کے علاوہ استعمال بھی کیا جاسکتا ہے، رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہوگا اور ایک ہی سوسائٹی میں بہت مدرسوں سے امن کی صورتحال خراب ہونے کا اندیشہ ہوگا۔
اعتراضات میں کہنا تھا کہ سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہو گا، ایف اے ٹی ایف، دیگر عالمی ادارے اپنی آرا اور ریٹنگز میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
اس میں کہا گیا کہ سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ 1860 میں دینی تعلیم داخل نہیں ہے، فائن آرٹ تعلیم داخل ہے، دینی تعلیم اور فائن آرٹ رکھتے ہیں تو تنازع ہوگا اور سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ سے مختلف نکتہ نظر رکھنے والوں کا تنازع ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مدارس کی رجسٹریشن اس ایکٹ کےذریعے شروع کیا تو قانون کی گرفت کم ہوسکتی ہے، قانون کم اور من مانی زیادہ ہوگی، مدارس سے متعلق بل بنانے کیلئے عالمی سطح کے امور کو مدنظر رکھا جائے، مجوزہ بل منظور ہونے سے عالمی سطح پر پابندیوں کا خدشہ ہے۔