نئی دہلی (صباح نیوز)

انڈیا میں تبلیغی جماعت کے مذہبی پروگرام کے انعقاد کی وجہ سے کووڈ 19 کے اعداد و شمار میں اضافے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک اور تشدد کی ویڈیوز مسلسل سامنے آ رہی ہیں۔ کئی ویڈیوز میں مسلمان ریڑھی والوں سے پھل اور سبزیاں نہ خریدنے کی اپیل کی جا رہی ہے۔ کچھ ویڈیوز ایسی بھی سامنے آئی ہیں جہاں مسلمانوں پر بھی حملہ کیا گیا ہے اور انھیں مارا پیٹا گیا ہے۔برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق اس نفرت کی جڑیں دن بدن گہری ہوتی جا رہی ہیں اور اب اسی سلسلے میں ایک نئی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔اس میں یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ گورکھپور کے علاقے سیکری گنج میں ایک مسجد میں اذان دیے جانے کی وجہ سے کچھ لوگوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ ایک منٹ 50 سیکنڈ کی ویڈیو میں مسلمانوں کی مقدس کتاب قرآن کو فرش پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس کے بعد ایک لڑکا بتاتا ہے کہ اذان کے بعد کچھ لوگ مسجد میں داخل ہوئے اور مار پیٹ کی۔چونکہ ویڈیو میں گورکھپور کے سیکری گنج علاقے کا ذکر کیا گیا ہے اس لیے سیکری گنج اور گورکھپور کے کچھ مقامی صحافیوں سے رابطہ کیا گیا۔ یہاں اطلاع ملی کہ اس طرح کا ایک واقعہ اس علاقے کے بن کٹا گاوں میں پیش آیا ہے۔اس کے بعد برطانوی میڈیا  ویڈیو میں نظر آنے والے شخص تک پہنچا جن کا نام سونو ہے۔سونو نے بتایا: ‘اذان اتوار کی دوپہر 1.25 بجے ظہر کی نماز کے لیے دی گئی تھی۔ جیسے ہی اذان ختم ہوئی حکم کے مطابق دو افراد نماز پڑھنے آئے۔ اسی وقت تین افراد آئے اور ہمیں گالیاں دینے لگے۔ انھوں نے پوچھنا شروع کیا کہ اذان کیوں دے رہے ہو تم لوگوں یہ کرنا منع ہے۔ یہ کہتے ہوئے وہ مسجد میں داخل ہو گئے اور قرآن پھاڑ کر پھیکنے لگے۔ جھگڑا بڑھا تو وہ لوگ یہاں سے چلے گئے اور پانچ منٹ میں ہی 25 افراد کا ہجوم آ گیا جن کے ہاتھون میں ڈنڈے تھے۔ ان لوگوں نے مجھے مارا، نے میرے بھائیوں کو مارا پیٹا۔ میرے والد ذرا آگے بچانے کے لیے آئے تو انھیں بہت مارا پیٹا۔’اس مار پیٹ میں سونو کے والد 65 سالہ عظمت علی کو شدید چوٹ لگی ہے۔ ان کے دائیں پیر میں فریکچر ہے اور ان کا سر تین جگہوں سے پھٹ گیا ہے۔لیکن اس معاملے میں سونو اور اس کے اہل خانہ نے حملہ آوروں کے ساتھ صلح کر لی ہے۔ اس واقعہ کے بعد انہوں نے ایف آئی آر درج نہ کرکے مفاہمت کا راستہ کیوں آپنایا؟اس سوال کے جواب میں ، سونو کا کہنا ہے کہ ‘اس گاوں میں مسلمانوں کے تقریبا 100 مکانات ہیں، لیکن بیشتر مسلم گاوں کے شمال کی طرف رہتے ہیں اور صرف چار مسلم خاندان ہی جنوب کی طرف رہتے ہیں۔ باقی ہم مکمل طور پر چاروں طرف سے ٹھاکروں (ہندو کی ایک ذات)سے گھرے ہیں۔ اگر ہم صلح نہیں کرتے اور اگر کل ہمارے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو ہمارے مذہب کے باقی لوگ اور پولیس تو بعد میں آتی لیکن جو ہوتا اس کا خمیازہ تو ہمیں بھگتنا پڑتا۔’طرفین میں صلح پولیس اور گاوں کے مکھیا یعنی سربراہ کے سامنے ہوا ہے۔جب ہم نے پولیس انتظامیہ سے بات کی تو انھوں نے اسے معمولی واقعہ قرار دے کر زیادہ طول نہ دینے کے لیے کہا۔سیکری گنج کے ایس او جٹاشنکر نے  بتایا کہ یہ جھگڑا اذان کے لیے ہوا تھا جس میں مسلمانوں کی جانب سے ایک شخص زخمی ہوا ہے۔ ایف آئی آر نہیں درج ہوئی۔ سب کچھ ٹھیک ہے، ہم جا کر دیکھ آئے ہیں۔ 17-18 سالہ لڑکے محسوس ہوا لوگ مسجد میں جمع ہوں گے اس لیے آپس میں جھگڑا ہوگیا۔پولیس کے دعوے کے برخلاف سونو نے ہمیں بتایا کہ مار پیٹ شروع کرنے والے ایک شخص کی عمر 35 سال ہے جبکہ دو کی عمر تقریبا 25 سال ہے۔بہر حال پولیس نے اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی کیونکہ طرفین نے آپس میں صلح کر لی۔