file photo

حکومت مساجد کا کنڑول حاصل کرنا چاہتی ہے اور مساجد کو تحریری خطبے دینا چاہتی ہے، مولانا عبدل اکبر چترالی

 بل کی آڑ میں جمعے کے خطبے تحریری طور پر دیے جائیں گے اور مساجد کا کنڑول حکومت کے پاس چلا جائے گا، حافظ حسین احمد

یہ کوئی سعودی عرب نہیں جہاں حکومت مساجد کو اس طرح کنڑول کرے

پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں اس طرح کی پابندی کوقبول نہیں کیا جائے گا،جرمن ٹی وی سے گفتگو

اسلام آباد(صباح نیوز)

پاکستان کی مذہبی جماعتوں نے قومی اسمبلی سے منظور شدہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری پراپرٹیز بل دو ہزار بیس کی شدید مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت مساجد کا کنڑول حاصل کرنا چاہتی ہے اور مساجد کو تحریری خطبے دینا چاہتی ہے۔قومی اسمبلی نے یہ بل پیر کو منظور کیا تھا، جو اب ایوان بالا سینیٹ میں پیش کیا گیا اور وہاں سے منظور ہونے کے بعد صدر کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا۔ اس بل کی شدید مخالفت جے یوآئی ایف اور جماعت اسلامی کی طرف سے کی گئی۔ جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی مولانا عبدل اکبر چترالی نے اس بل کی مخالفت کی وجوہات بتاتے ہوئے جرمن ٹی وی کو بتایا، ” بل میں یہ صاف صاف نہیں کہا گیا ہے کہ تحریری خطبہ ہوگا لیکن ہمارے خیال میں اس بل کا مقصد مساجد کو کنڑول کرنا ہے اور مدارس کے لیے مشکلات پیدا کرنا ہے۔ بل کہتا ہے کہ کسی تنازعہ کی صورت میں مسجد پر منتظم مقرر کیا جائے گا، جو حکومت کی طرف سے ہوگا۔ اس کا مطلب ہے کہ مسجد حکومت کے کنٹرول میں چلی جائے گی اور اس میں خطبہ سرکار کی مرضی سے پڑھایا جائے۔ پہلے یہ مساجد پر کنڑول حاصل کریں گے اور پھر تحریری خطبے دیں گے۔ اگر کسی کو دیکھنا ہے کہ حکومت کی لائن کس طرح ٹو کی جاتی ہے تو وہ اوقاف کی مساجد کو دیکھ لیں، جو آنکھ بند کر کے حکومت وقت کی ہمنوا بن جاتی ہیں۔”ان کا مزید کہنا تھا کہ بل مدارس کے لیے بھی مشکلات پیدا کرے گا۔ ” اس بل کے بعد اگر کوئی مدارس کو چندہ دے گا تو اس کو اپنی آن لائن تفصیلات جمع کرانی ہوگی۔ مساجد اور مدرسے حکومت سے پیسہ نہیں لیتے تو حکومت ایسی کوئی پابندی کیوں لگا سکتی ہے۔”عمران خان کی بھر پور مخالف جماعت جمعیت علما اسلام (ف) بھی بل کی منظوری پر چراغ پا ہے۔ پارٹی کے سابق نائب امیر اور موجودہ ترجمان حافظ حسین احمد نے  جرمن ٹی وی کو بتایا کہ اس بل کی بھر پور مخالفت کی جائے گی۔ "اس بل کی آڑ میں جمعے کے خطبے تحریری طور پر دیے جائیں گے اور مساجد کا کنڑول حکومت کے پاس چلا جائے گا تاکہ منبر سے حکمرانوں کی تعریف و توصیف ہو اور ان کے غیر شرعی کاموں پر نکتہ چینی نہ ہو۔”ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ کوئی سعودی عرب نہیں جہاں حکومت مساجد کو اس طرح کنڑول کرے۔ "پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ یہاں اس طرح کی پابندی کوقبول نہیں کیا جائے گا۔ سعودی عرب میں تو پھر بھی حکومت مساجد کے سارے اخراجات برداشت کرتی ہے، یہاں یہ اخراجات کوئی برداشت نہیں کرنا چاہتا لیکن صرف کنڑول کرنا چاہتے ہیں، جس کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی اور علما اس بل کو نہیں مانیں گے۔” حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے بل میں تحریری خطبے کا نہیں کہا لیکن ایسا خطبہ ہونے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان کا کہنا ہے ماضی میں منبر کا غلط استعمال کیا گیا۔ "کالعدم فاٹا میں جو مذہبی شدت پسندی بڑھی اس میں اس جمعے کے خطبات کا بہت کردار تھا، جہاں سے ریاست مخالف باتیں کی جاتی تھیں۔ آج بھی مساجد میں خطبات کو مذہبی اور فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تو میرے خیال میں تحریری خطبوں میں کوئی حرج نہیں اور یہ کام بہت پہلے ہوجانا چاہیے تھا۔”ان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کے تحریری خطبوں سے مذہبی منافرت کو روکا جا سکتا ہے اور ایسے عناصر کا قلع قمع بھی کیا جا سکتا ہے، جو مسجد اور مدارس کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں.