بھارت مسلمانوں کے لیے خطرناک ترین ملک
نئی دہلی(ویب ڈیسک )
ساوتھ ایشیا اسٹیٹ آف مائنارٹی نے اپنی 2020 کی رپورٹ شائع کی ہے جس میں کہا ہے کہ بھارت میں بی جے پی کی قیادت والی حکومت نے شہریت ترمیم قانون میں ترمیم کی ہے تب سے بھارت مسلم اقلیت کے لیے خطرناک اور پر تشدد مقام بن چکا ہے۔ساوتھ ایشین وائر کے مطابق سالانہ  جاری کی جانے والی اس رپورٹ میں جنوب ایشیا میں رہ رہے اقلیتی طبقے کے شہریوں کے اظہار رائے کی آزادی کا تخمینہ کیا جاتا ہے،افغانستان، بنگلہ دیش، بھوٹان، نیپال پاکستان اور سری لنکا جیسے ممالک کو شامل کر کے یہ رپورٹ تیار کی جاتی ہے۔ساوتھ ایشین وائرکے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جہاں پوری دنیا میں شہریوں کے حقوق کو خطرہ لاحق ہے وہیں بھارت میں گزشتہ کچھ برسوں میں ہوئی تبدیلیاں خطرے کی علامت ہے اور یہ تبدیلیاں جو کہ غیر معمولی تیزی سے ہوئی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق ‘بھارت مسلمانوں کے لیے خطرناک اور پر تشدد جگہ بن گئی ہے، دسمبر 2019 میں مرکزی حکومت کی جانب سے جو شہریت ترمیمی قانون نافذ کیا گیا ہے وہ مسلمانوں کو قانون کے دائرے میں شامل نہیں کرتا ہے، اس کے علاوہ حکومت نے این آر سی کے نفاذ کا بھی اشارہ دیا تھا جس سے کئی مسلمان ملک بدر ہو جائیں گے۔’
اس کے علاوہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ‘2014 سے جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے مذہبی اقلیتوں پر حملے ہوئے ہیں، اس سے صاف طور پر بھارت کے مسلمانوں اور مسلم تنظیموں کے حقوق اور اظہار رائے پر اثر پڑا ہے، مئی 2019 میں بی جے پی کے واضح اکثریت کے ساتھ دوبارہ اقتدار میں لوٹنے کے بعد حالات اور بھی بدتر ہوگئے ہیں، ‘فارن کنٹریبیوشن’ (ریگولیشن)ایکٹ جو بھارتی تنظیموں کے لیے غیر ملکی چندے کو کنٹرول کیا کرتا ہے میں بھی تبدیلی کی گئی ہے۔ ‘
ساوتھ ایشیا اسٹیٹ آف مائنارٹی کی رپورٹ کے مطابق ‘مسلم ادکاروں سمیت حقوق انسانی کے وکیل، سماجی کارکن، مظاہرین، ماہر تعلیم، صحافی، دانشور جو حکومت کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں ان سب پر تیزی سے حملے کیے گئے ہیں، انسانی حقوق کے کارکن پابندی، تشد، مجرمانہ بدنامی حراست اور ہراسانی کا سامنا کر رہے ہیں۔’ساوتھ ایشین وائرکے مطابق ساوتھ ایشیا اسٹیٹ آف مائنارٹی  کی رپورٹ میں گزشتہ برس جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے اور یہاں انسانی حقوق کی گئی پامالیوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ‘مرکزی حکومت نے دفعہ 370 کے تحت ریاست کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کر دیا تھا تو ‘یہ معاملہ بتاتا ہے کہ رسمی طور پر جمہوری دھانچے کی آڑ میں شہریوں کے لیے جگہ کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔’