ڈیرہ اسماعیل خان (ویب ڈیسک)
ہمیں مل کر گومل یونیورسٹی میں تعلیم اور ثقافت کے فروغ کے لئے کام کرنا ہے، وقت آگیا ہے کہ ہم سب ایک دوسرے کے شانہ بشانہ مل کر کام کریں تاکہ خطہ میں تکنیکی تعلیم ، انجینئرنگ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدا ن میں ہم دوسروں کے ساتھ چل سکیں۔ان خیالات کا اظہار وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے ان کی ایک سالہ بہترین کارکردگی کے اعزاز میں افسران و ملازمین کی جانب سے منعقدہ تقریب کے موقع پرمیڈیا نمائندگان سے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کیا۔وائس چانسلر گومل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد نے مزید کہا کہ معاشرتی ترقی کا دارومدار دورِ جدید میں میڈیا پر منحصر ہے۔ میڈیا معاشرے کا اہم سٹیک ہولڈر ہے ۔آج ہم دنیا کو میڈیا کی نظر سے دیکھتے ہیں اس لئے گومل یونیورسٹی میں جاری ترقیاتی کاموں، بین الاقوامی تعلیمی معیار اور ثقافتی سرگرمیوں کے فروغ کے لئے میڈیا کو اپنا اہم کردار ادا کرنا ہوگاوائس چانسلر گومل یونیورسٹی نے کہا کہ محض ایک سال کے دوران ہم نے یونیورسٹی کے کئی دیرینہ مسائل کو نہ صرف حل کیا بلکہ نئے پروجیکٹس کو بھی شروع کیا جو اب تکمیل کے مراحل میں ہیں۔ اگرچہ اب بھی ہم مالی معاملات میں حکومتی سرپرستی کے طلبگار ہیں پھر بھی شبانہ روز کاوشوں سے یونیورسٹی اپنے پاوں پر کھڑی ہونے لگی ہے، اب ہم نئے دور کا آغاز کرچکے ہیں، اب گومل یونیورسٹی صرف قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر اپنا امیج اجاگر کررہی ہے۔ ہم نہ صرف تعلیم کے میدان میں اپنی کامیابیوں کو بین الاقوامی سطح پر پیش کررہے ہیں بلکہ جنوبی اضلاع کی ثقافت کو بھی پروموٹ کررہے ہیںوائس چانسلر نے مزید کہا پرائیویٹ ماسٹر اور بی اے پروگرام سے طلبا پر تعلیم کے دروازے بند کردیئے گئے ہیں اور یونیورسٹیوں کے بجٹ پر بھی خاطر خواہ اثر پڑے گا اس مسئلہ کو حکومتی سطح پر اجاگر کیا میں نے اس مسئلہ کو بھرپور انداز میں اجاگر کیا اور وائس چانسلرز نے میری تائید کیڈاکٹر افتخار احمد نے کہا کہ نیک نیتی اور ایمانداری سے کام کرتا ہوں بغیر کسی کی پرواہ کئے اور یہی وجہ ہے کہ اس سے پہلے ایک یونیورسٹی میں وائس چانسلر تھا تب بھی اور اب بھی اپنا بیگ بنا کررکھتا ہوں کہ کب مجھے ہٹا دیں کیونکہ انصاف اور ادارے کی بہتری کے لئے کسی کے ساتھ گزارا نہیں کرتا وائس چانسلر گومل یونیورسٹی کا کہنا تھا جب انہوں نے جامع کا چارج سنبھالا تو یونیورسٹی مالی بحران کا شکار تھی اور ہراسمنٹ کے کیسیز کی وجہ سے یونیورسٹی کا امیج خراب ہو چکا تھا ، محدود وسائل میں خرچے کم کیے اور نئے پروگرام شروع کیے ان پروگراموں کی علاقے کو ضرورت بھی تھی اور ان سے انکم بھی ہورہی ہے، اب یونیورسٹی خسارے سے نکل کر منافع میں جارہی ہے، اس وقت یونیورسٹی کے پاس اگلے دو ماہ کی تنخواہیں موجود ہیں ہاں یہ درست ہے کہ جو لوگ کام نہیں کررہے تھے اور گھر بیٹھ کر تنخواہ لے رہے تھے، ایسے افراد کو ضرور فارغ کیا گیا، جس کی وجہ سے یونیورسٹی میں واضح بہتری آئی ہے،اس موقع پر وائس چانسلر کو سرائیکی اجرک اور پشتون ثقافت کی لنگی بھی پہنائی گئی۔