جامعہ کشمیر کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم عباسی کی تقرری کیخلاف دائر درخواست سپریم کورٹ نے مسترد کر دی
درخواست گذار اس مقدمہ کومفاد عامہ کا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہے‘ مفاد عامہ کے نام پر ذاتی تشہیر اور سیاسی پوائنٹ سکورنگ افسوسناک ہے
وائس چانسلر پر لگائے جانے والے الزامات کی احتساب بیورو نے قبل ازیں تحقیقات کے بعد اُنہیں بری الذمہ قرار دیا ہے‘ وہی الزامات دوبارہ عائد کرنا ناقابل فہم ہے
مظفرآباد (ویب نیوز )
مظفرآباد (پریس ریلیز) آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ نے جامعہ کشمیر کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم عباسی کے بطور وائس چانسلر تقرری کیخلاف دائر درخواست خارج کر دی۔ عدالت عظمیٰ کے جج رضا علی خان نے اپنے فیصلے میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد کلیم عباسی کی بطور وائس چانسلر تقرری کیخلاف دائر پٹیشن کو خارج اور عدالت العالیہ کے فیصلے کو درست قرار دیتے ہوئے کہا کہ درخواست گذاران، اس مقدمہ میں متاثرہ فریق نہیں اور نہ ہی اس کیس میں عوامی اہمیت کے قانون کا کوئی پہلو شامل ہے۔ اسلیئے اپیل کو میرٹ کے مغائر ہونے کی بنیاد پر خارج کیا جاتا ہے کیونکہ درخواست گذار اس مقدمہ کو مفاد عامہ کا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہے۔ آزاد جموں و کشمیر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمدکلیم عباسی کی بطور وائس چانسلر تقرری کیخلاف ہائی کورٹ کے فیصلے کیخلاف اپیل ہائی کورٹ کے وکیل نثار صادق ماگرے، سنٹرل بار ایسوسی ایشن مظفرآباد کے رکن شوکت حسین گہنائی ایڈووکیٹ اور سنٹرل بار ایسوسی ایشن کے ایک اور رکن جہانگیر احمد بلوچ نے چودہ ستمبر کو دائر کی تھی۔ جج جسٹس رضا علی خان نے مقدمہ کی سماعت کے بعد پانچ نومبر 2021؁ء کو مقدمہ کا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔ پندرہ صفحات پر مشتمل اپنے فیصلے میں عدالت اعظمیٰ نے کہا کہ یہ بات حیران کن ہے کہ مفاد عامہ کے قانون کا سہارا لے کر ایسی درخواستیں دائر کی جاتی ہیں جن کا مقصد ذاتی تشہیر یا سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یوں یہ درخواستیں نہ صرف ہمارا عدالتی نظام کی افادیت کو جھٹلانے کے مترادف ہے بلکہ عدالت کا وقت اور توجہ اہم قانون نوعیت کے مقدمات سے ہٹانے کی بھی کوشش بھی ہے۔ مفاد عامہ کے قانون کو معاشرے کے غریب اورکمزور افراد کے حقوق کا محافظ قرار دیتے ہوئے عدالت اعظمیٰ نے اپنے فیصلہ میں اس بات پر زور دیا کہ اس قانون کو نہایت احتیاط سے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ منفی مقاصد کی بنیاد پر عدالت میں دائر ہونے والی ایسی درخواستوں کو فوری طورپر مسترد کر دینا چاہیے۔ عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید لکھا ہے کہ رٹ پٹیشن میں وائس چانسلر کی تقرری کے علاوہ جو چارجز لگائے گئے ہیں، یہی چارجز ڈاکٹر لطف الرحمان کی ایک درخواست پر لگائے گئے تھے جو سپریم کورٹ نے بغرض انکوائری احتساب بیورو کے حوالے کی۔ احتساب بیورو نے باقاعدہ انکوائری کے بعد سپریم کورٹ میں جو رپورٹ جمع کی اس میں وائس چانسلر کو ان الزامات سے بری الذمہ قرار دیا گیا جبکہ ایک الزام کا معاملہ سول کورٹ اسلام آباد کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ لہذا وہی الزامات دوبارہ اعلیٰ عدالتوں میں لانے کا کوئی مقصد نہیں ہے یا تو پٹیشنر کو اس فیصلہ کا علم نہیں ہے یا پھر وہ دوبارہ نئے سرے سے اس طرح کے معاملات اُٹھانا چاہتے ہیں۔