اسلام آباد (ویب ڈیسک)

اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقبل مندوب منیر اکرم نے کہا ہے کہ پرامن اور مستحکم افغانستان امن اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے مسلسل اس بات پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں کشیدگی کا حل فوجی طاقت سے نہیں بلکہ سیاسی طور پر مذاکرات کے ذریعے حل کیا جانا چاہیے کیونکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں پائیدار امن صرف افغان قیادت اور افغان امن عمل کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہی نہیں اس کے لیے پاکستان نے امن اور بحالی کے عمل کی مکمل حمایت کی ہے۔

منیر اکرم نے یہ بات سلامتی کونسل میں کشیدگی اور غذائی تحفظ کے مابین لنک پر بحث میں کہی۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر بھوک اور فاقہ کشی کی بڑی وجوہات کشیدگی کی صورتحال اور غیر ملکی قبضے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو آگاہ کیا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط مقبوضہ جموں کشمیر میں بھارتی فوج کے غیر قانونی قبضے سے شہری آبادی کو 3.5 بلین ڈالر کا بھاری معاشی نقصان پہنچا ہے اور بھارتی فوج کے جابرانہ اور جارحانہ اقدامات اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں مکمل مواصلاتی بندش، سخت کرفیو کے نفاذ کے دوران کسی کو بھی دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات اور زمینی رابطوں کی بندش کو تقریباً 600 روز ہو گئے ہیں جس کے باعث کشمیری کسانوں کو اپنی زمینوں تک رسائی نہ ہونے سے شدید غذائی قلت کا سامنا ہے جبکہ کشمیری کسانوں کے زیادہ تر وہ سیب اور زرعی مصنوعات مقامی مارکیٹوں تک پہنچنے سے پہلے ہی راستوں میں گل سڑ جا تی ہیں جن پر ان کسانوں کی سالانہ آمدنی کا دارومدار ہوتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ شہری آبادی پر دباؤ بڑھانے کےاقدامات 2018ء کی اقوام متحدہ کی اس قرارداد 2417 کی خلاف ورزیوں کے مترادف ہیں جس کے تحت عام شہریوں کی مصنوعات غذائی پیداوار اور اس کی تقسیم کے تحفظ پر زور دیا گیا ہے اور یہ قراداد ایسی کارروائیوں کی مذمت کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدامات 1970ء کی اقوام متحدہ کی اس قرارداد کے بھی منافی ہیں جس کے تحت غیرملکی قبضے میں زندگی بسر کرنے والے افراد کو ان کے قدرتی وسائل اور اقتصادی سرگرمیوں تک موثر کنٹرول کی ضمانت دی گئی ہے۔

انہوں نے واضح کیا کہ بھارت نے 5 اگست 2019ء کو غیرقانونی تسلط میں مقبوضہ جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا درجہ اور اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازع علاقہ کی آبادیاتی ساخت کو زبردستی تبدیل کیا اور یہی نہیں بھارت نے کشمیریوں کو اقوام متحدہ کے تجویز کردہ حق خودارادیت کے حق سے بھی محروم رکھا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی قراردادوں اور بین الاقوامی معاہدوں کی بنیاد پر مذاکرات اور ڈپلومیسی کے زریعے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی قرارداد کی حمایت کرتا ہے ۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ پرامن اور مستحکم افغانستان امن اور استحکام کے لیے ناگزیر ہے اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے مسلسل اس بات پر زور دیاہے کہ افغانستان میں کشیدگی کا حل فوجی طاقت سے نہیں بلکہ سیاسی طور پر مذاکرات کے زریعے حل کیا جانا چاہیے کیونکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ افغانستان میں پائیدار امن صرف افغان قیادت اور افغان امن عمل کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے اور یہی نہیں اس کے لیے پاکستان نے امن اور بحالی کے عمل کی مکمل حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان نے افغانستان میں ترقی کے لیے ایک بلین ڈالرز کا عزم کیا ہے اور اس سلسلے میں پورے خطے میں اقتصادی ترقی کے لیے تقریباً 500 ملین ڈالر انفراسٹرکچر اور صلایت سازی کے منصوبوں پر پہلے ہی خرچ کیے جاچکے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کی وبا کے دوران کشیدگی سے غذائی عدم تحفظ مخصوص اہمیت اختیار کر گیا ہے اور غذائی تحفظ کے چیلنج سے نمٹنے میں ناکامی سے عالمی اور قومی سطح پر پہلے سے موجود عدم مساوات ، شدید بھوک ، فاقہ کشی ، محرومی، غربت اور تنازع میں مزید اضافہ ہو گا لہذا ہمیں بھوک اور غربت کی کی وجوہات کوختم کرنا ہوگا ۔ دیہی غربت کا خاتمہ اور خوراک کے کے نظاموں کی حفاظت کرنا ہو گی جو تقریبا ساڑھ چار ارب افراد کا بنیادی ذریعہ معاش ہے۔